مدعیہ کی طرف سے بڑے بڑے جید علماء کرام بطور گواہ پیش ہوئے۔ مثلاً مولانا غلام محمد شیخ الجامعہ عباسیہ بہاولپور، مولانا نجم الدین پروفیسر اورینٹل کالج لاہور، مولانا محمد شفیع مفتی دارالعلوم دیوبند، مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری اور مولانا سید انور شاہ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند وغیرہم۔ اس سے اس مسئلہ کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ فاضل جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ اس مسئلہ کا سارا دارومدار اس بات پر تھا کہ نبوت کی حقیقت کیا ہے اور نبی کسے کہتے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ: ’’موجودہ زمانے میں بہت سے مسلمان نبی کی حقیقت سے بھی ناآشنا ہیں۔ اس لئے بھی ان کے دلوں میں یہ مسئلہ گھر نہیں کرسکتا کہ مرزاقادیانی کو نبی ماننے میں کیا قباحت ہوتی ہے کہ جس پر اس قدر چیخ وپکار کی جارہی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کی کچھ تھوڑی سی حقیقت بیان کر دی جائے۔ مدعیہ کی طرف سے نبی کی کوئی تعریف بیان نہیں کی گئی۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ نبوت ایک عہدہ ہے جو اﷲتعالیٰ کی طرف سے اس کے برگزیدہ بندوں کو عطا کیا جارہا ہے اور نبی اور رسول میں فرق بیان کیا گیا ہے کہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور نبی کے لئے لازمی نہیں کہ وہ رسول بھی ہو۔ فریق ثانی نے (بحوالہ نبراس ص۸۹) بیان کیا ہے کہ رسول ایک انسان ہے۔ جسے اﷲتعالیٰ احکام شریعت کی تبلیغ کے لئے بھیجتا ہے۔ بخلاف نبی کے وہ عام ہے۔ کتاب لائے یا نہ لائے۔ رسول کے لئے کتاب لانا شرط ہے۔ اسی طرح رسول کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ رسول وہ ہوتا ہے جو صاحب کتاب ہو یا سابقہ شریعت کے بعد احکام کو منسوخ کر دے۔‘‘ (فیصلہ ص۱۰۷تا۱۰۶) اس کے بعد فاضل جج نے لکھا: ’’یہ تعریفیں چونکہ اس حقیقت کے اظہار کے لئے کافی نہ تھیں۔ اس لئے میں اس جستجو میں رہا کہ نبی یا رسول کی کوئی ایسی تعریف مل جائے جو تصریحات قرآن کی رو سے تمام لوازم نبوت پر حاوی ہو۔‘‘ (فیصلہ ص۱۰۷)
اس کے بعد انہوں نے لکھا کہ: ’’انہوں نے اس باب میں کافی جستجو کی لیکن نبی کی کوئی جامع تعریف انہیں نہ مل سکی۔ آخر کار ایک رسالہ میں ایک مضمون بہ عنوان میکانکی اسلام از جناب چوہدری غلام احمد پرویز میری نظر سے گذرا۔ اس میں انہوں نے مذہب اسلام کے متعلق آج کل کی روشن ضمیر طبقہ کے خیالات کی ترجمانی کی ہے اور پھر خود ہی اس کے حقائق بیان کئے ہیں۔ اس سلسلہ میں نبوت کی جو حقیقت انہوں نے بیان کی ہے۔ میری رائے میں اس سے بہتر اور کوئی بیان نہیں کی جاسکتی اور میرے خیال میں فریقین میں سے کسی کو اس سے انکار بھی نہیں ہوسکتا۔ اس لئے میں ان کے الفاظ میں ہی اس حقیقت کو بیان کرتا ہوں۔‘‘ (فیصلہ ص۱۰۷)
ازاں بعد انہوں نے میرے اس مضمون سے خاصا مفصل اقتباس درج کیا اور نبی کی جو