اپنی احادیث کا کوئی مجموعہ مرتب کر کے یا مرتب کراکر، اپنی تصدیق کے ساتھ امت کو نہیں دیا۔ حضورﷺ کی وفات کے دواڑھائی سوسال بعد بعض حضرات نے انفرادی طور پر ان اقوال کو جمع اور مرتب کیا۔ جنہیں حضورﷺ کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ اس طرح احادیث کے مختلف مجموعے وجود میں آئے۔ ان مجموعوں میں جو روایات درج ہیں۔ ان میں صحیح بھی ہیں اور غلط بھی۔ یہ جو ہمارے ہاں مختلف فرقوں میں باہمی اختلافات پائے جاتے ہیں تو ان کی وجہ یہ ہے کہ ایک فرقہ ایک حدیث کو صحیح قرار دے کر اس کے مطابق عمل کرتا ہے اور دوسرا فرقہ اسے غلط (ضعیف ووضعی) قرار دے کر اس کے خلاف کسی دوسری روایت پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ لہٰذا جب بات کسی حدیث تک پہنچے گی تو سب سے پہلے یہ سوال سامنے آئے گا کہ آیا وہ حدیث قول رسولﷺ ہے بھی یا نہیں۔ چنانچہ سید ابوالاعلیٰ مودودی اپنے فریق مخالف کے ساتھ بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اصل واقعہ یہ ہے کہ کوئی روایت جو رسول اﷲﷺ کی طرف منسوب ہو۔ اس کی نسبت کا صحیح اور معتبر ہونا بجائے خود زیر بحث ہوتا ہے۔ آپ (یعنی مودودی صاحب کے فریق مقابل) کے نزدیک ہر اس روایت کو حدیث رسولؐ مان لینا ضروری ہے۔ جسے محدثین سند کے اعتبار سے صحیح قرار دیں۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ ضروری نہیں۔ ہم سند کی صحت کو حدیث کے صحیح ہونے کی لازمی دلیل نہیں سمجھتے۔‘‘ (رسائل ومسائل حصہ اوّل ص۲۹۰)
لہٰذا جب فیصلہ کا مدار حدیث پر رکھا جائے گا تو سب سے پہلے یہ سوال سامنے آئے گا کہ وہ حدیث صحیح بھی ہے یا نہیں۔ ایک فریق اسے صحیح قرار دے گا اور دوسرا فریق غلط اور اس کے خلاف اپنی طرف سے پیش کردہ حدیث کو صحیح۔ اس باب میں دیکھئے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کا مؤقف کیا تھا۔ قادیانی حضرات کے خلیفۂ ثانی (مرزامحمود احمد قادیانی) کا ارشاد ہے: ’’حضرت مسیح موعود (یعنی مرزاقادیانی) فرمایا کرتے تھے کہ حدیثوں کی کتابوں کی مثال تو مداری کے پٹارے کی ہے۔ جس طرح مداری جو چاہتا ہے اس میں سے نکال لیتا ہے۔ اسی طرح ان سے جو چاہو نکال لو۔‘‘ (خطبہ جمعہ، مندرجہ اخبار الفضل مورخہ ۱۵؍جولائی ۱۹۲۴ئ)
خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے: ’’اور جو شخص حکم ہوکر آیا ہے۔ اس کا اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پاکر قبول کر لے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر رد کر دے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۰، خزائن ج۱۷ ص۵۱ حاشیہ)
اس رد وقبول کا معیار کیا ہے اس کے متعلق لکھتے ہیں: ’’میرے اس دعویٰ کی بنیاد حدیث نہیں بلکہ قرآن اور وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی