بلکہ میری طرف سے عرصہ سات آٹھ سال سے برابر یہی شائع ہورہا ہے کہ میں مثیل مسیح ہوں۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعض روحانی خواص طبع اور عادات اور اخلاق وغیرہ کے خداتعالیٰ نے میری فطرت میں بھی رکھے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ج۱ ص۱۹۰،۱۹۱، خزائن ج۳ ص۱۹۲)
اور لطف یہ کہ اسی کتاب (ازالہ اوہام) میں چند صفحات پہلے فرماتے ہیں۔ ’’اب جو امر کہ خداتعالیٰ نے میرے پر منکشف کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ مسیح موعود میں ہی ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام ج۱، طبع دوم ص۳۸،۳۹، خزائن ج۳ ص۱۲۲)
اور جلد دوم میں اپنے آپ کو مسیح موعود ثابت کرنے کے لئے ایک سو اکانوے صفحات وقف فرمائے ہیں اور ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے کہ میرے دعویٰ کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں۔ فرمائیے ہم ان بیانات سے کیا نتیجہ اخذ کریں؟
دلچسپ جواب
مرزاقادیانی براہین احمدیہ میں لکھ چکے تھے کہ حضرت مسیح بن مریم زندہ ہیں اور وہ آخری زمانے میں آسمان سے نازل ہوںگے۔ پھر ازالہ اوہام میں عیسیٰ کی وفات پر تیس دلائل پیش کیں۔ جب کسی نے اس تضاد پہ اعتراض کیا تو آپ نے جواب میں لکھا: ’’مگر خدا نے میری نظر کو پھیر دیا۔ میں براہین کی وحی کو نہ سمجھ سکا کہ وہ مجھے مسیح موعود بناتی ہے۔ یہ میری سادگی تھی جو میری سچائی پر ایک عظیم الشان دلیل تھی۔ ورنہ میرے مخالف مجھے بتلاویں کہ میں نے باوجودیکہ براہین احمدیہ میں مسیح موعود بنایا گیا تھا۔ بارہ برس تک یہ دعویٰ کیوں نہ کیا اور کیوں براہین میں خدا کی وحی کے مخالف لکھ دیا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۴) یعنی تضاد تو پیدا ہوا مرزاقادیانی کے کلام میں اور اس کا جواب دیں آپ کے مخالفین کیا دلچسپ منطق ہے؟ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص بارہ برس تک دو اور دو چار کہتا رہے اور تیرھویں سال دو اور دو کو اٹھارہ بنادے اور جب کوئی اعتراض کرے تو وہ کہے کہ اس بوالعجبی کا جواب تمہارے ذمہ ہے۔
یہاں یہ سوال بھی پیداہوتا ہے کہ جو وحی ہر روز آپ پر بارش کی طرح برستی تھی۔ اس نے پورے بارہ برس تک آپ کو یہ کیوں نہ سمجھایا کہ آپ کی فلاں بات خلاف حقیقت ہے۔ کیا اﷲتعالیٰ کی دانش وحکمت کا تقاضا یہی تھا کہ اس کا ایک جلیل القدر رسول بارہ برس تک خلاف حقیقت لکھتا اور کہتا رہے اور خدا عرش پر خاموش بیٹھا رہے؟