’’اگر تجربہ کے رو سے خدا کی تائید مسیح بن مریم سے بڑھ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘ (دافع البلاء ص۲۰،۲۱، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰،۲۴۱)
’’خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳)
’’یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس کاسبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے۔‘‘
(کشتی نوح ص۶۵ حاشیہ، خزائن ج۱۹ ص۷۱)
’’پھر تعجب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود اخلاقی تعلیم پر عمل نہیں کیا۔ انجیر کے درخت کو بغیر پھل کے دیکھ کر اس پر بددعاء کی اور دوسروں کو دعاء کرنا سکھایا اور دوسروں کو یہ بھی حکم دیا کہ تم کسی کو احمق مت کہو۔ مگر خود اس قدر بدزبانی میں بڑھ گئے کہ یہودی بزرگوں کو ولد الحرام تک کہہ دیا۔‘‘ (چشمہ مسیحی ص۱۱، خزائن ج۲۰ ص۳۴۶)
’’اس جگہ حضرت مسیح کی تہذیب اور اخلاق پر ایک سخت اعتراض وارد ہوتا ہے کہ فقیہوں اور فریسیوں کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت مسیح نے نہایت غیر مہذب الفاظ استعمال کئے۔‘‘ (ازالہ اوہام ج۱ طبع دوم حاشیہ ص۱۰، خزائن ج۳ ص۱۰۷)
’’یہ بات قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ حضرت مسیح بن مریم باذن وحکم الٰہی الیسع نبی کی طرح اس عمل الترب (مسمریزم، شعبدہ بازی) میں کمال رکھتے تھے… اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو حضرت مسیح سے کم نہ رہتا۔‘‘
(ازالہ اوہام ج۱ ص۳۰۸،۳۰۹ طبع دوم، خزائن ج۳ ص۲۵۷،۲۵۸)
’’واضح ہو کہ اس عمل جسمانی (مسمریزم) کا ایک نہایت برا خاصہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے تئیں اس مشغولی میں ڈالے… وہ… روحانی تاثیروں… میں بہت ضعیف اور نکما ہو جاتا ہے… یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح… ہدایت اور توحید… کے بارے میں ان کی کارروائیوں کا نمبر ایسا کم درجہ کا رہا کہ قریب قریب ناکام کے رہے۔‘‘
(ازالہ اوہام۱؎ ص۳۱۰،۳۱۱، خزائن ج۳ ص۲۵۸)
۱؎ اقتباس میں نقطوں کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے بعض حصے حدف کر کے عبارت کو حسب منشاء ڈھال لیا ہے۔ حاشا وکلا، بدیانتی کا کوئی ارادہ نہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ بعض زائد الفاظ کو بغرض اختصار حذف کر دیا گیا ہے۔ (برق)