مذہب سے دلچسپی رکھنے والے تھے اور اس وقت احادیث میں بیان کئے ہوئے بعض آثار کی وجہ سے انتظار کا ایک عام ماحول چھایا ہوا تھا۔ لوگ مہدی آخر الزمان کے نزول کے لئے دیدہ براہ تھے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے۔
وقت تھا وقت مسیحانہ کسی اور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا
(درثمین اردو)
ایسے میں اس طرح کی خوابیں آنا بالکل قابل فہم ہے۔
مرزاقادیانی کے بعد موجودہ خلیفہ قادیانی نے اپنی حقانیت اور بلندی مقام کے ثبوت کے لئے خواب سے استفادہ جاری رکھا ہے۔ تکنیک کے اعتبار سے خلیفہ قادیان کے خواب اپنے والد قادیانی کے خوابوں سے بہتر ہیں۔ مقصدی نقطۂ نگاہ سے بہتر خواب وہ ہے جو گنجلک خیال آفرین اور کثیر التعبیر ہو اور یہ خوبیاں خلیفہ صاحب کے خوابوں میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔
خواب کو حقیقت پر مبنی عقلی دلائل پر ایک فوقیت یہ حاصل ہے کہ دلیل کو آپ دلیل سے رد کر سکتے ہیں۔ لیکن خواب کا کوئی جواب ہی نہیں۔ سوائے اس کے کہ ایک جوابی خواب بیان کر دیا جائے۔ یہ دقت مرزاقادیانی کو اور موجودہ خلیفہ قادیان کو پیش آچکا ہے۔ خواب دیکھنے میں خواب کی خواہش اور خواب کی نسبت یقین کو بڑا دخل ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنے متبعین میں یہ خواہش اور یقین دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ پیدا کر دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ احمدیوں کو دوسرے لوگوں کی نسبت خوابیں زیادہ آتی ہیں۔ بعض نے مرزاقادیانی کی حقانیت کے خلاف خوابیں دیکھیں اور اس طرح مرزاقادیانی کو اپنی جماعت میں سے بعض ایسے لوگوں کا مقابلہ کرنا پڑا جو ان کے خلاف ان کا مسلمہ حربہ خواب استعمال کرتا تھا۔ موجودہ خلیفہ قادیان کو بھی بعض اس قسم کے مخالفین کا سامنا ہے۔ ہمارے نزدیک خواب نہ صداقت کا معیار ہے اور نہ تکذیب کا۔ سچی خواب یعنی وہ خواب جو خدا کی طرف سے ہو اور جس سے مقصود کسی معاملہ کی نسبت خبر یا ہدایت دینا ہو۔ وحی کی ایک قسم ہے اور ہر قسم کی وحی نبوت کے ساتھ ختم ہوگئی ہے۔ اس کے خلاف خیال، خواہ اس کی کوئی تاویل ہی کی جائے، فی الواقع عقیدۂ ختم نبوت کے منافی ہے۔ ختم نبوت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم خواب پر انحصار کرنے کی بجائے دنیا کی حقیقتوں پر غور کریں اور عقل کی روشنی سے اپنا راستہ متعین کریں۔