اس مفروضے پر تعبیر کا وسیع اور پیچیدہ علم وجود میں لایا گیا ہے۔ ذاتی طور پر ہم خواب کی مادی توجیہہ کے قائل ہیں۔ لیکن موجودہ مقصد کے لئے اس بحث میں پڑنا ضروری نہیں ہے۔ اگر خواب کی روحانی توجیہہ درست ہو تو بھی یہ سوال قائم رہتا ہے کہ اس کا نبوت سے کیا تعلق ہے؟
اس تعلق کے ضمن میں عجیب وغریب اور باہم متضاد باتیں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً ایک نابیان کردہ تقسیم کے عمل سے نبوت کے حصے کر دئے گئے ہیں اور کہاگیا ہے کہ سچی خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ یہ کہیں مذکور نہیں کہ دیگر پینتالیس حصے کون سے ہیں اور پھر یہ اتنی دقیق اور مکمل تقسیم کیونکر کی گئی ہے۔ دوسری طرف بخاری کی سند سے ایک روایت یہ بیان کی گئی ہے کہ نبی کریمﷺ کی وحی کی ابتداء رویائے صادقہ سے ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ رؤیائے صادقہ وحی کی ایک قسم ہے۔ وحی سے الگ اور کم تر چیز نہیں ہے۔ اس صورت میں وحی کے بند کئے جانے اور مبشرات کے جاری رہنے سے صرف یہ مراد ہوسکتی ہے کہ وحی کی ایک قسم جاری رکھی گئی ہے اور دوسری بند کی گئی ہے۔ یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ اگر الہامی ذریعہ ہدایت جاری رکھنا مقصود تھا تو واضح ملفوظ الہام کے بند کرنے اور مبہم اور تعبیر طلب وحی کو جاری رکھنے میں کیا حکمت تھی؟
مبشرات کی اس توجیہہ کے لئے ایک قرآنی آیت سے بھی تائید حاصل کی گئی ہے۔ وہ آیت یہ ہے۔ ’’الا ان اولیاء اﷲ لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون۰ الذین اٰمنوا وکانوا یتقون۰ لہم البشریٰ فی الحیوٰۃ الدنیا وفی الاخرۃ۰ لا تبدیل لکلمت اﷲ۰ ذالک ھو الفوز العظیم (یونس:۶۲تا۶۴)‘‘
اس آیت میں بشریٰ سے مراد سچی خوابیں لیاگیا ہے۔ معمولی تدبیر سے معلوم ہوگا کہ اس لفظ کے یہ معنی نہیں ہوسکتے۔ اگر بشریٰ سے مراد سچی خوابیں ہیں تو آخرت میں سچی خوابیں دکھائے جانے سے کیا مطلب ہے؟۔
نبوت کے اس چھیالیسویں حصے کو مرزاقادیانی کے دعاوی اور احمدیہ تحریک کے ارتقاء کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ مرزاقادیانی کی بیشتر وحی خوابوں پر مشتمل ہے اور جو حصہ الفاظ میں ہے۔ وہ بھی عام طور پر کسی نہ کسی خواب سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ شروع میں مرزاقادیانی کی بیعت میں شامل ہونے والوں میں ایک معقول تعداد ایسے لوگوں کی تھی جن کو خواب میں مرزاقادیانی کی صداقت کا اشارہ دیاگیا تھا۔ ہم ان اصحاب کے بیان کی تردید نہیں کرتے اور مان لیتے ہیں کہ انہوں نے ایسی خوابیں دیکھی ہوںگی۔ یہ کوئی ایسا پیچیدہ معاملہ نہیں۔ یہ سب لوگ