آسکتا ہے۔ یہ بات مولوی صاحب کے خیال میں نہیں آئی کہ یہ تاویل کرنے سے وہ قادیانی مؤقف کے کس قدر قریب آگئے ہیں۔
ہم حضرت عائشہؓ کے قول کی صحت کی نسبت کوئی حتمی رائے قائم کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ البتہ ہم مولوی محمد علی قادیانی سے اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس قول کے معنی یہ ہوں کہ رسول کریمﷺ کے بعد بھی نبی آسکتے ہیں تو یہ قول یقینا غلط ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس قول کے یہ معنی نہیں ہیں۔ اس سے مراد ختم نبوت کے ظاہری اور لفظی مفہوم سے توجہ ہٹا کر اسلام کے اس مرکزی اور بنیادی تصور کی معنوی اہمیت پر زور دینا ہے۔ نبی کریمﷺ واقعی آخری نبی تھے اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ لیکن اس سے معاملے کی روح کی طرف کوئی رہنمائی نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں خاتم النبیین جامع اور بلیغ الفاظ ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ محمد رسول اﷲﷺ کے ذریعہ اس مقصد کی تکمیل ہوگئی ہے۔ جو انبیاء کے ذریعہ پورا ہونا تھا۔ نبوت مکمل ہوگئی۔ اس لئے ختم ہوگئی ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں نبوت کا کمال ہی اس ذریعۂ ہدایت کے خاتمے کا احساس ہے اور یہ کمال اور یہ احساس نبی کریمﷺ کی ذات میں حاصل ہوگیا ہے۔
مذکورہ بالا اقتباس مولوی محمد علی قادیانی کی کتاب ’’النبوۃ فی الاسلام‘‘ میں سے تھا۔ یہاں مولوی صاحب نے ایک حدیث کا ذکر کیا ہے جو مبشرات کے متعلق ہے۔ کتاب میں ایک دوسری جگہ مولوی صاحب نے مبشرات پر کافی تفصیل سے بحث کی ہے اور ایک پورا باب اس پر صرف کیا ہے۔ متعلقہ حدیث کے الفاظ اس طرح بیان کئے گئے ہیں۔
’’آنحضرتﷺ نے فرمایا وحی منقطع ہوگئی اور نہیں باقی رہیں۔ مگر مبشرات اور وہ رؤیا صالحہ ہے جس کو مؤمن دیکھتا ہے یا وہ اس کے لئے دکھائی جاتی ہے۔‘‘
مبشرات کے لفظی معنی خوشخبری کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً یہ لفظ رؤیا یعنی سچی خواب کے لئے استعمال ہوا ہے۔ نظریاتی لحاظ سے خواب کا معاملہ ایک اختلافی موضوع ہے۔ ایک طرف وہ مادی سائنٹیفک نظریہ ہے جو خواب کو خواب بین کے مادی احوال اور ذہنی کیفیات مثلاً جذبات، خواہشات وغیرہ سے وابستہ کرتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہر خواب متعلقہ شخص کی اپنی جسمانی اور ذہنی کیفیات کا نتیجہ ہوتی ہے اور کسی خارجی روحانی قوت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں ابھی تک اس نظریے کو بہت کم قبول کیاگیا ہے۔ عام خیال یہی ہے کہ بہت سی خوابیں انسان کو بعض معاملات میں رہنمائی مہیا کرنے کے لئے خدا کی طرف سے ایک اشارہ ہوتی ہیں۔