واضح اور بین ہے۔ خود قرآن کا دعویٰ یہی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ بیشتر آیات کے جو معانی پرویز صاحب کرتے ہیں۔ وہ آج تک کسی نے نہیں کئے اور قرآن کی ظاہری عبارت، سیاق وسباق اور تاریخی پس منظر کے سراسر خلاف ہیں۔ اس صورت میں اگر پرویز صاحب کے معانی درست ہیں تو قرآنی آیات ایک ایسا (Sign Posts) ہے کہ جس کی عبارت سمجھنے کے لئے ہر وقت ایک مذہبی رہنما کی ضرورت قائم رہے گی۔ بلکہ اس صورت میں بہتر یہی ہوگا کہ یہ رہنمائی ایک نبی کے ذریعے کی جائے تاکہ اگر قرآن کے معنی ہماری عقل کے مطابق نہیں ہیں تو کم ازکم ہمیں یہ تو تسلی ہو کہ ان معانی کی تائید وحی سے کی گئی ہے۔
ہمارے نزدیک درست صورت یہ ہے کہ ختم نبوت کی تکمیل پر انسان مکمل طور پر آزاد ہے۔ جس طرح راستے پر چلنا اس کے اختیار میں ہے۔ اسی طرح (Sign Posts) قائم کرنا بھی اس کا اپنا کام ہے۔ جو خیال اس صورتحال کے خلاف ہے۔ وہ لازماً اس حد تک نظریۂ ختم نبوت کے خلاف ہے۔
اس بنیادی نظریے کی موجودگی میں ختم نبوت اور اجرائے نبوت کے بارے میں جماعت احمدیہ اور ان کے معروف مخالفین کی تاویلات کا تفصیلی جائزہ غیر ضروری ہے۔ تاہم دونوں فریقوں کے درمیان جو تنازعہ ہے۔ اس کے چند پہلوؤں کا ذکر کرنا مناسب ہے۔ اس سے مقصود صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ کس طرح دونوں فریق غیر حقیقی مباحث میں الجھے رہے ہیں اور معاملہ کی حقیقت کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے۔
جیسا کہ چند سابقہ ابواب کی بحث سے ظاہر ہے مرزاقادیانی نے نبوت کے ضمن میں سب سے زیادہ زور الفاظ پر دیا ہے۔ مثلاً یہ کہ نبی نہیں آسکتا۔ لیکن مجدد آسکتا ہے۔ مہدی موعود آسکتا ہے وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مرزاقادیانی کے اکثر مخالفین کی بحث بھی الفاظ تک محدود ہے۔
مرزاقادیانی کا صاف اور سیدھا جواب یہ ہے کہ نبوت بند ہوگئی ہے۔ نبوت یعنی ہدایت بذریعہ وحی نام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جو شخص اس کا مدعی ہے کہ اسے اس بات پر مامور کیاگیا ہے کہ وہ وحی کی مدد سے لوگوں کی رہنمائی کرے وہ مدعی نبوت ہے۔ خواہ اپنا کوئی نام ہی رکھے۔ نبی کا لفظ توعربی اور چند دیگر زبانوں تک محدود ہے۔ دنیا کی دیگر بیسیوں زبانوں میں اس مفہوم کو کیسے ادا کریںگے؟ مثلاً چین میں ایک شخص ہے وہ اپنے آپ کو نبی نہیں کہتا۔ لیکن وحی کے ذریعے لوگوں کی ہدایت کا دعویدار ہے۔ ظاہر ہے اس کا دعویٰ، نبوت کے سوا کچھ نہیں۔