احادیث کا مفہوم معلوم کرنا رہ جاتا ہے۔ یہ ایک فنی کام ہے جس کا اہل ہر شخص نہیں ہوسکتا۔ صرف وہی لوگ اس کے اہل ہیں۔ جن میں ضروری علمی قابلیت موجود ہو۔ اس کے بعد جو امور ایسے ہیں۔ جن کی نسبت قرآن اور حدیث میں واضح احکام موجود نہ ہوں۔ ان کا فیصلہ بھی قرآن اور سنت کی روشنی میں کرنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ یہ کام بھی صرف ماہرین فن کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو بات اسلام کو دیگر بہت سے مذاہب سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسلامی نظریے کے مطابق مذہب ہر شخص کا ذاتی اور پرائیویٹ معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ اسلام مذہب کو انسان کے شخصی اور اجتماعی تمام شعبوں پر حاوی کرتا ہے۔ اس فرق کو ایک دوسرے طریق پر اس طرح ظاہر کیا جاتا ہے کہ اسلام مذہب نہیں۔ دین ہے۔ بالخصوص اس بارے میں اسلام کا مقابلہ عیسائیت سے کیا جاتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ برخلاف عیسائیت کے اسلام کی رو سے زندگی کا کوئی شعبہ خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، مذہب سے خارج نہیں ہے۔
اگر یہ سب باتیں درست ہوں تو اسلام کے ذریعے مذہبی پیشوائیت ختم نہیں ہوسکتی۔ بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہوگی۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں مذہبی پیشوائیت بطور ایک سیاسی نظام کے کبھی قائم نہیں ہوسکی۔ نہ عروج کے زمانے میں اور نہ دور انحطاط میں، اور اس کے مقابلے میں عیسائیوں میں جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے ایک لمبے عرصہ تک پیشوائیت اپنی انتہائی شدید صورت میں موجود رہ چکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں مذہبی پیشوائیت کا قیام ایک بالکل جدید رجحان ہے اور یہ رجحان اسلامی تعلیم اور تمدن کے صریحاً خلاف ہے۔ دوسرا امر خاندانی بادشاہت کا خاتمہ ہے۔ بادشاہت کا نبوت سے ایک گہرا تعلق ہے۔ بیشتر انبیاء اپنی قوم کے دنیاوی سردار اور بادشاہ بھی تھے اور یہ بات اس دور کے تقاضوں کے مطابق تھی۔ اگر اخلاقی اقدا ر کے لئے تنہا عقل پر انحصار نہ ہوسکتا تھا۔ تو سیاسی نظام کے لئے بھی عوام کو آزادی نہ دی جاسکتی تھی۔ آج جمہوری نظام ایک ناقابل استثناء فطری حقیقت معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ ہم کتنے مراحل سے ہوکر موجودہ صورت تک پہنچے ہیں۔ محمد رسول اﷲﷺ کی بعثت کے دور کا خیال کرتے ہوئے اسلامی تعلیم کا سب سے زیادہ انقلابی پہلو بادشاہت کا خاتمہ ہے۔ اسلام کے ذریعے نہ صرف خاندانی بادشاہت کا خاتمہ کیاگیا ہے۔ بلکہ عالمگیر آزادی، اخوت اور مساوات کے وہ اصول پیش کئے گئے ہیں۔ جن کے عمل سے بالآخر بادشاہت کے ادارے ہی کو ختم ہوجانا تھا۔ سلطانی جمہور اور ختم نبوت ایک ہی ارتقائی عمل کے دو پہلو ہیں۔