نظام نے عیسائی دنیا کے عوام کی آزادی فکر وعمل کو سلب کئے رکھا۔ بلکہ اس دور میں بادشاہ تک کلیسائی اقتدار سے سرتابی نہ کر سکتے تھے۔ یہ صورتحال عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے صریحاً خلاف تھی۔ حقیقت ہے کہ ازمنۂ وسطیٰ کی عیسائیت میں مسیحی تعلیم کی روح کا بہت کم حصہ باقی رہ گیا تھا۔
اسلام کے ذریعہ مذہبی پیشوائیت کے خاتمے کی طرف ایک اور قدم اٹھایا گیا ہے۔ لیکن یہاں اس عمل کی بنیاد پہلے سے کہیں مضبوط اصول پر قائم کی گئی ہے۔ قرآن کا طریق عہدنامہ جدید سے مختلف ہے۔ یہاں فقیہوں اور فریسیوں کے خلاف محض مذمت کے کلمات سے کام نہیں لیا گیا۔ بلکہ لوگوں کو ان غیر مذہبی ذرائع ہدایت کی راہ پر ڈال دیا گیا ہے۔ جو عملاً مذہبی پیشوائیت کی ضرورت کو ختم کرتے ہیں۔ یہ ذرائع جیسا کہ علامہ اقبال نے بتایا ہے۔ عقل کی روشنی میں نیچر پر غور کرنا اور تاریخ کا مطالعہ ہیں۔
آگے چلنے سے پہلے ایک امر کی تصریح کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ موجودہ بحث میں پیشوائیت کا لفظ ایک خاص محدود اصطلاحی معنوں میں استعمال ہورہا ہے۔ پیشوائیت سے ہماری مراد اس معاشرتی نظام سے ہے۔ جس کے اندر کسی قسم میں سیاسی اقتدار کی اساس محض دینی علوم میں مہارت قرار دی جائے۔ دوسرے الفاظ میں ہم اس کو (Theocracy) کہہ سکتے ہیں۔ سیاسی اقتدار سے الگ ویسے مذہبی علوم میں دسترس حاصل کرنا یا دینی علم کی وجہ سے کسی شخص کا سوسائٹی میں عزت کا مقام حاصل کرنا بالکل دوسری باتیں ہیں اور ان کا پیشوائیت کے اصطلاحی مفہوم سے کوئی تعلق نہیں اور پیشوائیت کے خاتمے کا یہ تقاضا بھی نہیں کہ دینی علوم کے ماہرین کے لئے سیاسی اقتدار ممنوع ہے۔ تھیوکریسی کا امتیازی نشان یہ ہے کہ اس میں سیاسی اقتدار کے استحقاق کی بنیاد (بظاہر) دینی علوم پر ہوتی ہے۔ بظاہر اس لئے کہ عملاً محض دینی علوم کا ہونا بھی کافی نہیں ہوتا۔ تھیوکریسی میں حکمران طبقہ میں شامل ہونے کے لئے علاوہ دینی علوم کے زندگی کے متعلق ایک خاص قسم کا طرز فکر بھی ضروری ہوتا ہے۔ تقلید وروایات پرستی اور قدامت پسندی اس طرز فکر کے لازمی اجزاء ہیں۔
لیکن کیا اسلام واقعی مذہبی پیشوائیت کے خلاف ہے؟ ہمارے ملک میں بعض حلقوں کی طرف سے عملاً علامہ اقبال کے اس مؤقف کی پرزور تردید ہورہی ہے۔ دلیل یہ ہے کہ اسلام زندگی کا ایک مکمل ضابطہ پیش کرتا ہے۔ اس ضابطے کی بنیاد وحی پر ہے۔ وحی سے مراد صرف قرآن نہیں بلکہ قرآن اور سنت دونوں ہیں۔ جن معاملات میں قرآن یا سنت کے کوئی قواعد موجود ہوں۔ وہاں ہمارے لئے آزادانہ سوچ بچار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ قرآن کی تفسیر اور