خدا کی صفات کے ساتھ نبی کے مشن میں بھی ایک فرق بین طور پر نظر آرہا ہے۔ ایک طرف قرآن میں ہے کہ نبی کو جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں پرانے عہدنامے میں سے کتاب خرقی ایل کی یہ عبارت ملاحظہ کیجئے۔
’’اے آدم زاد نبی عمون کی طرف متوجہ ہو اور ان کے خلاف نبوت کر۔ صیدا کا رخ کر کے اس کے خلاف نبوت کر۔ شاہ مصر فرعون کے خلاف ہو اور اس کے اور تمام ملک مصر کے خلاف نبوت کر۔‘‘
تشکیل نو کا جو اقتباس ہم نے اس باب کے شروع میں نقل کیا ہے۔ اس کے آخر میں علامہ اقبال نے جن امور کو ختم نبوت کے مختلف پہلو بیان کیا ہے۔ ان کی نسبت ایک مختصر تنقید کرنا ضروری ہے۔ علامہ کے الفاظ میں اسلام میں مذہبی پیشوائیت اور خاندانی بادشاہت کا خاتمہ اور قرآن میں باربار عقل اور تجربہ سے خطاب اور اسی طرح اس کتاب کا نیچر اور تاریخی پر بطور ذرائع علم زور دینا۔ اسی ایک تصور خاتمیت کے مختلف پہلو ہیں۔ یہاں اقبال نے تین چیزوں کو قرآنی تعلیم کی ایک امتیازی خصوصیت بیان کیا ہے۔ اس بارے میں پہلا غور طلب نکتہ یہ ہے کہ علامہ کے نزدیک یہ تین باتیں ختم نبوت کی دلیل ہی نہیں بلکہ اس تصور کے مختلف پہلو ہیں۔ جس سے مراد یہ ہے کہ حقیقتاً ان امور کے اجتماعی نتیجے میں ختم نبوت کا عقیدہ مترتب ہوتا ہے اور تکمیل پاتا ہے۔
سب سے پہلے مذہبی پیشوائیت کو لیجئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مذہبی پیشوائیت کی ماہیت کیا ہے۔ اسلام اسے کس طرح ختم کرتا ہے اور عقیدہ ختم نبوت سے اس کا کیا تعلق ہے؟
پیشوائیت کا وحی کے منصب کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے۔ انسان کی صورت میں وحی کی ہدایت ہر انسان کو انفرادی طور پر براہ راست مہیا نہیں کی جاتی۔ کوئی ایک یا چند انسان منتخب کر لئے جاتے ہیں۔ ان پر وحی نازل ہوتی ہے اور دوسرے لوگوں تک یہ وحی پہنچانا اور اس پر عمل کرنے کی تلقین کرنا ان خاص افراد کا کام ہوتا ہے۔ یہ افراد اپنے اس منصب کی وجہ سے رسول اور نبی کہلاتے ہیں۔ لیکن ہر قوم میں ایسا زمانہ بھی آتا ہے۔ جب اس میں کوئی نبی موجود نہیں ہوتا اور یہاں سے ہی نبی کے قائم مقام یا مذہبی پیشوا کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ضرورت پہلے کیوں پیدا ہوتی تھی اور اسلام کے ساتھ کیوں کر ختم ہوگئی ہے؟
ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدائی وحی اپنے دائرہ عمل کے لحاظ سے ہمہ گیر تھی اور اس کی رو سے عمل کی معمولی معمولی تفاصیل کے قواعد بھی مقرر کر دئیے جاتے تھے۔ (یہ بات اس دور کے تقاضا کے عین مطابق تھی۔ فرد کی طرح نوع کی طفولیت میں آزادیٔ فکر وعمل کا دائرہ لازماً