صفات رحمت وجلال سے متصف ہے۔
انسان کا تصور صفات قہریہ کے تخیل سے کیوں شروع ہوا؟ اس کی علت واضح ہے۔ فطرت میں کائنات کی تعمیر، تخریب کے نقاب میں پوشیدہ ہے۔ انسانی فکر کی طفولیت تعمیر کا حسن نہ دیکھ سکی۔ تخریب کی ہولناکیوں سے سہم گئی۔ تعمیر کا حسن وجمال دیکھنے کے لئے فہم وبصیرت کی دور رس نگاہ مطلوب تھی اور وہ ابھی اس کی آنکھوں نے پیدا نہ کی تھی۔
مندرجہ ذیل عبارتوں پر غور کیجئے۔
الف… پھر خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ آدم زاد نبوت کر اور کہہ کہ خداوندیوں فرماتا ہے کہ تو کہہ تلوار بلکہ تیز اور صیقل کی ہوئی تلوار ہے۔ وہ تیز کی گئی ہے تاکہ اس سے بڑی خوںریزی کی جائے وہ صیقل کی گئی ہے تاکہ چمکے وہ تیز اور صیقل کی گئی ہے تاکہ قتل کرنے والے کے ہاتھ میں دی جائے۔ اے آدم زاد! تو رو اور نالہ کر۔ کیونکہ وہ میرے لوگوں پرچلے گی۔ وہ اسرائیل کے سب امراء پر ہوگی۔ وہ میرے لوگوں سمیت امرا کے حوالے کئے گئے ہیں اور اے آدم زاد تو نبوت کر اور تالی بجا اور تلوار دو چند بلکہ سہ چند ہو جائے اور میں اپنا قہر تجھ پر نازل کروںگا اور اپنے غضب کی آگ تجھ پر بھڑکاؤںگا اور تجھ کو حیوان خصلت آدمیوں کے حوالے کروںگا۔ جو برباد کرنے میں ماہر ہیں تو آگ کے لئے ایندھن ہوگا اور تیرا خون ملک میں بہے گا اور پھر تیرا ذکر بھی نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ میں خداوند نے فرمایا ہے۔
ب… اور چار پائے پیدا کر دئے جن میں تمہارے لئے جاڑے کا سامان اور طرح طرح کے منافع ہیں اور ان سے تم اپنی غذا بھی حاصل کرتے ہو۔ جب ان کے غول شام کو چر کر واپس آتے ہیں اور جب چراگاہوں کے لئے نکلتے ہیں تو ان کے منظر میں تمہارے لئے خوشنمائی رکھ دی ہے اور انہی میں وہ جانور بھی ہیں جو تمہارا بوجھ اٹھا کر ان شہروں تک پہنچادیتے ہیں۔ جہاں تک تم بغیر سخت مشقت کے نہیں پہنچا سکتے تھے۔ بلاشبہ تمہارا رب بڑا ہی شفقت رکھنے والا اور صاحب رحمت ہے۔
’’اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقینا اﷲ تمہارے تمام گناہ بخش دے گا۔ یقینا وہ بڑا بخشنے والا بڑی ہی رحمت رکھنے والا ہے۔‘‘
پہلی ہی نظر سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان میں سے کون سا اقتباس بائبل سے ہے اور کون سا قرآن سے اور اس کے لئے ضروری نہیں کہ قاری نے پہلے سے یہ عبارتیں دیکھی ہوئی ہوں۔