پہلا امرتو انبیاء کے تواتر اور تعداد کا ہے۔ عہدنامۂ قدیم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں کوئی دور ایسا نہ تھا کہ جس میں انبیاء موجود نہ ہوں۔ کئی دفعہ ایک ہی وقت میں کئی انبیاء موجود تھے۔ اس کے بعد ہم انبیاء کی تعداد اور ان کے تسلسل میں بتدرئج ایک کمی پاتے ہیں۔ یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمانہ آجاتا ہے۔ اس کے بعد ایک طویل وقفہ آتا ہے۔ غالباً اس وقت تک کی تاریخ میں سب سے لمبا یعنی قریباً ۶۰۰سال کا جس میں کہ کسی نبی کا ذکر نہیں ملتا اور پھر محمد رسول اﷲﷺ مبعوث ہوئے۔ جن کی ذات میں نبوت اپنے خاتمے کی ضرورت کے احساس کے ساتھ اپنے کمال تک پہنچتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ختم نبوت کا مرحلہ تدریجاً حاصل کیاگیا اور شروع سے نبوت کے ختم ہونے کا مقصد سامنے رکھاگیا۔
دوسرااہم امر جو ہمیں اس مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے وہ انداز ہدایت کی مسلسل تبدیلی ہے۔ گوشروع سے وحی کا مقصد انسان کو خدا پرستی اور نیک عملی کی تعلیم دینا رہا ہے۔ لیکن اس تعلیم کا اسلوب بتدریج تبدیل ہوتا رہا ہے اور اس تبدیلی کے مطالعہ سے بھی نظریۂ ارتقاء کی تائید ہوتی ہے۔ مذہب کا مرکزی نقطہ خدا کا تصور ہے۔ اس تصور میں کس طرح بتدریج ترقی ہوئی ہے اور اس میں کیا حکمت تھی ان امور کی وضاحت کے لئے مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں: ’’انبیاء کرام (علیہم السلام) کی دعوت کی ایک بنیادی اصل یہ رہی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ خداپرستی کی تعلیم ویسی ہی شکل واسلوب میں دی۔ جیسی شکل واسلوب کے فہم وتحمل کی استعداد مخاطبوں میں پیدا ہوگئی تھی۔ وہ مجمع انسانی کے معلم ومربی تھے اور معلم کا فرض ہے کہ متعلموں میں جس درجہ کی استعداد پائی جائے اسی درجہ کا سبق بھی دے۔ پس انبیاء کرام نے بھی وقتاً فوقتاً خدا کی صفات کے لئے جو پیرایۂ تعلیم اختیار کیا وہ اس سلسلۂ ارتقاء سے باہر نہ تھا۔ بلکہ اس کی مختلف کڑیاں مہیا کرتا ہے۔ ارتقائی نقطے ہمیشہ تین ہی رہے اور انہی سے اس سلسلہ کی ہدایت اور نہایت معلوم کی جاسکتی ہے۔‘‘
۱… تجسم سے تنزیہہ کی طرف۔
۲… تعدد واشراک سے توحید کی طرف۔
۳… صفات قہر وجلال سے صفات رحمت وجمال کی طرف۔
یعنی تجسم اور صفات قہریہ کا تصور اس کا ابتدائی درجہ ہے اور تنزہ اور صفات رحمت وجمال سے اتصاف اعلیٰ وکامل درجہ جو تصور جس قدر ابتدائی اور ادنیٰ درجہ کا ہے۔ اتنا ہی تجسم اور صفات قہریہ کا عنصر اس میں زیادہ ہے۔ جو تصور جس قدر زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اتنا ہی زیادہ منزہ اور صفات