پر انحصار کرنے میں انسان کے ذہن میں اپنے حال سے زیادہ مستقبل یعنی اگلی منزل ارتقاء کا حصول ہوتا ہے۔ اس غرض کے لئے اسے اپنے نئے ذریعۂ عمل وہدایت کو تقویت دینا اور اس میں خود اعتمادی پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے اور پرانے ذرائع ہدایت کی موجودگی عقل کی پختگی میں روک ثابت ہوسکتی ہے۔
’’عقل اور جوہر استنباط کی پیدائش کے ساتھ زندگی خود اپنے مفاد کے لئے ان غیر عقلی ذرائع شعور کی نمودار اور افزائش کو بند کر دیتی ہے۔ جن میں کہ اس کی ذہنی قوت انسانی ارتقاء کے نسبتاً ابتدائی دور میں جاری رہی تھی۔ قیاس کرنے والی عقل جو انسان کو اس کے ماحول پر قادر بناتی ہے۔ ایک حاصل کی ہوئی استعداد ہے۔ اس استعداد کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی اس کی مزید تقویت کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ علم کے دیگر ذرائع کی مناہی کر دی جائے۔‘‘
علاوہ ازیں اس مرحلے پر بدلے ہوئے حالات میں انسان کو جو مسائل پیش آتے ہیں وہ اس کے اوائلی دور سے یکسر مختلف ہوتے ہیں اور ان سے عہدہ برا ہونے کے لئے قدیم ذرائع پر انحصار ناکافی ہو جاتا ہے۔
’’قدیم دنیا کا یہ طریق کارنیم مذہبی اعتقادات اور روایات کو منظم شکل دینے سے آگے نہیں جاسکتا اور اس سے ہم زندگی کے ٹھوس احوال پر قابو نہیں پاسکتے۔‘‘
لیکن نوع انسانی کا قدیم دور سے نکل کر جدید میں داخلے کا واقعہ یک لخت عمل میں نہ آسکتا تھا۔ جس طرح ایک فرد کی بلوغت کا عمل اس طرح ظہور پذیر نہیں ہوتا کہ ایک دن تو وہ نابالغ ہو اور اس سے الگے روز اچانک مکمل بلوغت حاصل کر لے۔ اسی طرح نوع کی اجتماعی بلوغت بھی بتدریج مختلف مراحل طے کرتے ہوئے اپنے کمال تک پہنچتی ہے اور جس طرح فرد کے لئے کم سنی اور بلوغت کے درمیان ایک (Adolescence) کا زمانہ ہوتا ہے۔ اسی طرح نوع قدیم سے جدید تک پہنچنے میں ایک عبوری دور سے گذرتی ہے۔
ہدایت کے تقضیات ارتقاء کے مختلف مراحل کے ساتھ بدلتے رہے ہیں اور ان کو پورا کرنے کی غرض سے وحی بھی بتدریج مقام تبدیل کرتی رہی ہے۔ گویہ درست ہے کہ دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم میں رسول آتے رہے ہیں۔ لیکن سامی نسل کی اقوام سے باہر انبیاء کے حالات ہمیں کسی تفصیل کے ساتھ معلوم نہیں ہیں۔ ان اقوام میں اگر ہم اس ذریعۂ ہدایت کی تاریخ پر غور کریں تو سرسری سے مطالعے پر بھی بعض اہم امور ایسے رہے ہیں۔ جو نہایت وضاحت کے ساتھ سامنے آجائیں گے۔