ہے۔ پرویز صاحب نے وحی کو آسمانی ذریعہ ہدایت قرار دیا ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ وحی کا تعلق وحی پانے والے وجود سے باہر ایک قوت کے ساتھ ہے۔ لیکن اس قوت کو آسمانی اور انسان کو زمینی کہنا کم ازکم اقبال کے نظریے کے ایک پہلو کے مطابق نہیں ہے۔ اقبال کے الفاظ میں نبی کی شخصیت میں زندگی کا محدود مرکز اپنی ہی ذات کی لامحدود گہرائیوں میں ڈوب کر تازہ قوت حاصل کرتا ہے۔ علامہ نے خطبات میں انسان اور خدا کے باہم لطیف اور عمیق تعلق کو بیان کرنے میں ایک جامع اور بلیغ لفظ خودی استعمال کیا ہے۔ خدا کی ہستی کو علامہ نے غیر محدود مطلق خودی اور اس کے مقابلے میں انسان کو اس غیر محدود مطلق خودی کا ایک محسوس اور محدود صورت کا نام دیا ہے۔
لیکن وہ نقطہ جس پر پہنچ کر پرویز صاحب اور علامہ اقبال کے خیالات میں اختلاف ایک شدید صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ نوع انسانی کے عالم جوانی میں وحی کے مقام کی نسبت ہے۔ پرویز صاحب کے نزدیک نبوت کے ختم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسانی ذہن نے سن بلوغ حاصل کر لیا ہے۔ اس مقام پر پہنچنے کے بعد آئندہ ارتقاء کے لئے جدید وحی کے ذریعے ہدایت پہنچانا ضروری نہیں رہا۔ جو اصولی غیر متبدل قواعد عمل ایسے ہیں جن کو عقل وضع نہیں کرسکتی۔ وہ ایک مستقل اور منزہ من الخطا وحی کی صورت میں مہیا کر دئیے گئے ہیں اور اس وحی کی ہمیشہ کے لئے حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لے لیا ہے۔ ان اصولی قواعد کے اندر رہتے ہوئے انسان کو تفصیلی احکام اپنی عقل کی مدد سے خود متعین کرتے ہیں۔ فی الواقع یہ خیالات نظریۂ ارتقاء کی درست تعبیر نہیں ہیں۔ حقیقتاً یہ طرز فکر انسان کو آزاد کرنے کی بجائے اس کو جدید اور پہلے سے زیادہ سخت پابندیوں میں جکڑنے کا موجب ہے۔ لیکن اس کی تصریح ذرا بعد میں آئے گی۔ فی الحال یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ اس ضمن میں بھی علامہ اقبال کا نظریہ پرویز صاحب کے خیال سے واضح طور پر مختلف ہے۔ اقبال کے نزدیک ارتقاء کے آخری دور میں انسان کے لئے عمل کے تمام قواعد کی نسبت (خواہ وہ اصولی ہوں یا تفصیلی اور فروعی) تنہا عقل پر انحصار کرنا مقدر ہے۔
’’اس (ختم نبوت) سے مراد اس امر کا شدید احساس ہے کہ زندگی ہمیشہ کے خارجی سہارے کی محتاج نہیں رہ سکتی اور یہ کہ خود شعوری کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ بالاخر انسان محض اپنی استعداد پر انحصار کرنے لگے۔‘‘(خطبات)
پرویز صاحب بھی اس احساس کے ایک حد تک قائل ہیں۔ لیکن ان کی نظر میں یہ احساس ایک سطحی پندار کے جذبے کا نتیجہ ہے۔ جس طرح مثلاً ایک جوان آدمی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ بچوں جیسا سلوک کیا جائے۔ لیکن اقبال کے نزدیک وحی کی بجائے عقل پر