مفسر قرآن اور ترجمان اقبال جناب پرویز کے حصے میں آئی۔ چنانچہ انہوں نے اپنی بصیرت افروز تصنیف معراج انسانیت کے آخری باب میں ختم نبوت کے عنوان سے ایک ایسا جامع مقالہ سپرد قلم فرمادیا ہے۔ جو اس موضوع پر فی الحقیقت حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘
ترجمان اقبال کے حرف آخر کے بعد کچھ اور کہنا بہت جسارت کی بات ہے۔ لیکن ہم چند باتیں عرض کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تشکیل نو کا جو اقتباس اس باب کے شروع میں پیش کیاگیا ہے وہ پرویز صاحب اور ادارۂ طلوع اسلام کے ہاں چنداں مقبول نہیں ہوسکا۔ جس رسالے کا ذکر ابھی کیاگیا ہے۔ اس کے موضوع کے ساتھ خطبات کے متذکرہ حصہ کو گہرا اور بنیادی تعلق تھا۔ لیکن اس رسالے میں خطبات کے اس حصہ کو شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اس کے بعد پرویز صاحب دو ایسی کتابیں تحریر فرماچکے ہیں۔ جن کے موضوع پر بھی علامہ اقبال کے یہ نظریات کافی روشنی ڈال سکتے تھے۔ ایک کتاب ’’اقبال اور قرآن‘‘ ہے۔ ہمارے خیال میں قرآن کی نسبت علامہ اقبال کے تصورات کو سمجھنے کے لئے مناسب تھا کہ اس کتاب میں وحی کے بارے میں علامہ کا نظریہ پیش کیا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں کیاگیا۔ اس ضمن میں پرویز صاحب کی آخری تصنیف ان کی کتاب ’’نظام ربوبیت‘‘ ہے جس کو ان کے ادارے نے دور حاضر کی عظیم کتاب قرار دیا ہے۔ اس عظیم کتاب کے موضوع کا مرکزی خیال وحی اور عقل کا تقابل ہے۔ مصنف کے نزدیک نظام ربوبیت کے لئے تنہا عقل کی رہنمائی کافی نہیں ہے اور نہ کسی صورت میں ہوسکتی ہے۔ بلکہ ہر دور میں اس نظام کی بنیاد وحی پر رکھنا ناگزیر ہے۔ ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ ترجمان اقبال نے اس معاملے میں اقبال کے فکر کی پوری ترجمانی نہیں کی۔ اقبال کے جن اشعار سے عقل کی کوتاہی کی سند ملتی تھی، مصنف نے ان کو نمایاں طور سے لکھ دیا ہے۔ لیکن خطبات کا ذکر نہیں کیا۔ جہاں کہ اقبال نے وحی اور عقل کی نسبت اصولی اور سائنٹیفک انداز میں بحث کی ہے۔
ہمارے خیال میں اس فروگذاشت کی وجہ یہ ہے کہ پرویز صاحب اس منطقی نتیجے سے بچنا چاہتے ہیں۔ جس تک اقبال کا وہ نظریۂ ارتقاء ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ جو اس عظیم مفکر نے خطبات میں بیان کیا ہے۔
جہاں تک وحی کی ابتدائی ضرورت کا سوال ہے۔ پرویز صاحب کا استدلال علامہ اقبال کے نظریے کے مطابق ہے۔ یعنی وحی کی ضرورت انسانی ذہن کے عالم طفولیت کے تقاضوں سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن یہاں بھی پرویز صاحب پر اقبال کے نظریے کا ایک اہم نکتہ ضائع ہوگیا