اسلام کی طرف سے شائع کردہ ایک رسالہ اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ اس رسالے کے دو حصے ہیں۔ ایک کا عنوان ہے۔ ’’احمدیت اور اسلام‘‘ اور یہ مشتمل ہے احمدیہ تحریک کی نسبت علامہ اقبال کے چند مضامین کے اردو ترجمے پر۔ (اصل مضامین انگریزی میں تھے اور یہ وہی مضامین ہیں جن کا اس باب کے شروع میں ذکر ہوچکا ہے) رسالے کے دوسرے حصے میں ختم نبوت کے عنوان کے تحت پرویز صاحب کا وہ مقالہ درج کیاگیا ہے جو انہوں نے اسی عنوان سے اپنی کتاب معراج انسانیت کے ایک باب میں شامل کیا تھا۔
ہم اس رسالے کے مؤخر الذکر حصے میں سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جس سے نبوت کی نوعیت اور اس کے مقصد کے باب میں پرویز صاحب کے خیالات معلوم ہوںگے۔
’’بچہ جب پہلے پہل چلنا سیکھتا ہے تو اسے اٹھنے کے لئے کسی آسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سہارا لے کر اٹھتا ہے اور ابھی دو چار قدم بھی چلنے نہیں پاتا کہ لڑکھڑا کر گر پڑتا ہے۔ گرتا ہے تو ادھر ادھر حسرت بھری نگاہوں سے مدد کی تلاش کرتا ہے۔ مایوس ہوجاتا ہے تو رہ رہ کر کسی اٹھانے والے کو پکارتا ہے۔ کوئی انگلی پکڑ کر اٹھانے والا مل جائے تو پھر چار قدم چل لیتا ہے۔ ذرا اور بڑا ہو جائے تو گنڈرینے کے سہارے چلتا ہے وہ ہاتھ سے چھوٹ جائے تو پھر مشکل ہو جاتی ہے اور بڑا ہوجائے تو اپنے پاؤں پر کھڑا ضرور ہو جاتا ہے۔ لیکن چلتا پھرتا ان مقامات ہی میں ہے۔ جن سے وہ مانوس ہوتا ہے۔ غیر مانوس مقامات کی طرف جانے سے گھبراتا ہے۔ لیکن جب وہ اسی طرح اٹھتے بیٹھتے، گرتے پڑتے، گھبراتے سنبھلتے پوری جوانی کو پہنچ جاتا ہے۔ تو پھر اسے انگلی پکڑنے والے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مانوس وغیر مانوس مقامات کا امتیاز اٹھ جاتا ہے۔ روشنی اور اندھیرے کا فرق بھی باقی نہیں رہتا۔ اب وہ ہر جگہ بلاخوف وخطر چلا جاتا ہے۔ اگر کہیں ٹھوکر سے گربھی پڑے تو خود بخود اٹھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح یہ بتانا چاہتا ہے کہ اسے کسی خارجی مدد کی احتیاج نہیں۔ وہ اس مدد کو اپنی شان جوانمردی کے خلاف سمجھ کر اس میں خفت محسوس کرتا ہے۔ البتہ اس مقام پر اسے ایک چیز کی ضرورت باقی رہتی ہے اور یہ احتیاج فقط یہ ہے کہ شاہراۂ زندگی میں جہاں جہاں دوراہے آئیں وہاں نشان راہ نصب ہوں۔ جن پر واضح اور بین الفاظ میں لکھا ہو کہ یہ راستہ کدھر جاتا ہے اوردوسرا راستہ کس طرف۔‘‘
رسالے کے پیش لفظ میں ناظم ادارۂ طلوع اسلام نے پرویز صاحب کے مضمون کا تعارف اور اس کا علامہ اقبال کے مضامین سے تعلق ان الفاظ سے ظاہر کیا ہے۔ ’’علامہ اقبال کا یہ بیان (ان کے اسلوب کے مطابق) اصولی ارشادات پر مشتمل تھا۔ ان قرآنی ارشادات کی تفصیل