حیثیت حاصل کرلی۔ لیکن یہاں بنیادی سے مراد یہ نہیں کہ انسان کے فکر وعمل کے بیشتر قواعد عقل نے مہیا کرنے شروع کر دئیے۔ بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ دیگر ذرائع سے حاصل کی ہوئی ہدایت کو قبول کرنا یا نہ کرنا عقل کے اختیار میں آگیا۔ لیکن کسی اختیار کا حاصل ہونا ایک بات ہے اور اس کا غیر محدود طور پر آزادانہ عمل انسان کی ناپختگی کے باعث مکمل تباہی کا موجب ہوسکتا تھا اور مقصد اس وجود کے امکانات کا امتحان تھا نہ کہ اس کی تباہی۔ اس لئے نوع انسانی کے کم سنی کے دور میں ذہنی قوت نے وہ شے پیدا کی جسے اقبال نے پیغمبرانہ شعور کا نام دیا ہے اور علامہ کے نزدیک اس شعور کو وجود میں لانا دراصل ایک طریقہ ہے۔ جس کے ذریعہ فیصلہ رد واختیار اور راہ عمل کے انتخاب کے چند اصول مقرر کر لئے جاتے ہیں اور اس طرح انفرادی فکر واختیار میں کمی عمل میں لائی جاتی ہے۔ اس مرحلہ پر انسان کو ضرورت اس بات کی تھی کہ پیچیدہ فلسفیانہ نظریات کی بحث میں پڑنے کی بجائے زندگی کے چند بڑے بڑے اصول اپنے سامنے رکھے اور ان پر بے چون وچرا عمل کرتا جائے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ علامہ اقبال نے پیغمبرانہ شعور کی پیدائش کے زمانے کو نوع انسانی کی کم سنی کا دور قرار دیا ہے۔ یہ نظریہ نہایت اہم اور بہت دورس نتائج کا حامل ہے۔ کم سنی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ نوع انسانی کی جوانی کے ساتھ پیغمبرانہ شعور کے دائرہ عمل میں کمی واقع ہوتی جائے گی اور اس کے نتیجے میں انفرادی فکر واختیار کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا۔
ہمیں اعتراف ہے کہ نبوت کی نسبت علامہ اقبال کے اس نظریہ کو دور حاضر کے مسلمانوں (بالخصوص طبقۂ علماء نے) بہت کم قبول کیا ہے۔ ہمارے علم میں پاکستان کے اہل علم حلقوں میں محترم غلام احمد صاحب پرویز تنہا وہ شخص ہیں۔ جنہوں نے بظاہر علامہ اقبال کے نظریے کا تتبع کیا ہے۔ ہمارا ارادہ اس موضوع کی نسبت پرویز صاحب کے خیالات کا کسی قدر تفصیل کے ساتھ جائزہ لینے کا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پرویز صاحب اس وقت پاکستان میں ایک خاص مذہبی تحریک کے بانیوں میں سے ہیں اور عملاً ان کی تحریریں اس تحریک کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کے اندر فکر نے مسلمانوں کے ایک طبقہ کو خاصی حد تک متاثر کیا ہے اور ہمارے اندازے میں ان کا حلقۂ اثر روبہ ترقی ہے۔ گو کسی تیز رفتاری کے ساتھ نہیں۔
اقبال کا مطالعہ پرویز صاحب کا خاص موضوع ہے۔ بلکہ ان کا مجلہ طلوع اسلام ۱۹۳۸ء میں اقبال کی یادگار میں ہی جاری کیاگیا تھا۔ اس وقت سے اب تک پرویز صاحب اقبال کے متعلق کچھ نہ کچھ لکھتے رہے ہیں۔ زیربحث موضوع کی نسبت سال ۱۹۵۴ء میں ارادہ طلوع