وحی کا عمل اس وجود میں اسی طرح کارفرما تھا جس طرح کہ دوسری غیر انسان مخلوق میں۔ یعنی یہ وحی ایک جبلت (Instinct) کی صورت میں موجود تھی۔ جس پر عمل کرنے کے لئے کسی ارادے کی ضرورت نہیں تھی اور اس پر عمل نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ لہٰذا نیکی اور بدی کا تصور بھی شروع نہ ہوا تھا۔ اقبال نے یہ خیال اس طرح ظاہر کیا ہے۔
’’انسان کی پہلی نافرمانی میں اس کا پہلا آزاد فعل بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنی بیان کے مطابق یہ پہلا گناہ معاف کر دیا گیا۔ نیکی جبر سے عمل میں نہیں آسکتی۔ نیکی کے معنی کسی مختار شخصیت کا آزادانہ طور پر اپنے آپ کو اخلاقی اقدار کا مطیع کرنا اور ان کے حصول کے لئے اپنی خودی کے قویٰ کو بالارادہ تعاون پر آمادہ کرتا ہے۔ جس ہستی کی حرکات ایک مشین کی مانند مقرر کر دی گئی ہوں۔ وہ نیکی کیسے کر سکتی ہے۔ آزادیٔ عمل کے بغیر نیکی ممکن نہیں۔‘‘
عقل کے موجود میں آنے سے وحی نے آئندہ کے لئے انسان کی جبلت کا حصہ ہونے کی بجائے ایک ایسے ذریعۂ ہدایت کی صورت اختیار کر لی۔ جس پر عمل کرنا یا نہ کرنا انسان کے اختیار اور ارادہ میں آگیا۔ یہ اختیار اور ارادہ انسان عقل کی روشنی سے استعمال کرتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ عقل سے ہماری مراد دانائی (Wisdon) نہیں ہے۔ بلکہ محض سوچنے کا مادہ (Reason) ہے۔ عقل (Reason) کا راست یا غلط استعمال ایک علیحدہ سوال ہے۔ اس نئے وصف کا غلط استعمال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گمراہی ایک خطرہ (Risk) ہے۔ لیکن قضا وقدر نے اور خود انسان نے یہ خطرہ قبول کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ خطرہ اب پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ باشعور آدم کو وجود میں لانے کا لازمی حصہ ہے۔
’’یہ بھی درست ہے کہ ایک ایسی محدود خودی (Finite Ego) کو وجود میں لانا جو عمل کی مختلف راہوں کا موازنہ کر کے رد واختیار کے قابل ہو، خطرہ سے خالی نہیں۔ کیونکہ جس طرح یہ ہستی نیکی کرنے میں آزاد ہے۔ اسی طرح بدی کی راہ اختیار کرنے میں بھی آزاد ہے۔‘‘
لیکن یہ خطرہ بغیر مقصد کے قبول نہیں کیاگیا۔ اس کی بنیاد ایک یقین پر ہے۔ اقبال کے نزدیک اس پراز خطر واقعہ کو وجود میں لانا ظاہر کرتا ہے کہ خدا کو انسان میں کسی درجہ یقین ہے۔ یہ اب انسان کے لئے ہے کہ خدا کے اس اعتماد کو حق بجانب ثابت کرے۔ شاید اس پر ازخطر صورتحال کو اختیار کئے بغیر اس وجود کے امکانات کا امتحان ممکن نہ تھا۔ جو احسن التقویم میں پیدا کیاگیا اور اسفل السافلین میں داخل کیاگیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی پیدائش سے ہی عقل نے بطور ذریعۂ ہدایت بنیادی