سامان مہیا کیا۔ تم کتنا کم شکر کرنے والے ہو۔
اقبال کے نزدیک ہبوط آدم کے قصے میں جنت سے مراد فردوس بریں نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد انسانی وجود کی وہ حالت ہے جس میں وہ ابھی اذیت شعور سے آزاد تھا۔ یعنی فی الواقع انسان نہ بنا تھا۔ لیکن بننے کے قریب تھا۔ اس خیال کی وضاحت علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کی ہے۔
’’یہ باور کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں کہ قرآن کے قصے (Legend) میں جنت یا باغ کے لفظ سے مراد جسمانی لذت سے مکمل طور پر لطف اندوز ہونے کی کوئی فردوس بریں ہے۔ جہاں سے انسان کو نکال کر باہر پھینک دیا گیا ہو۔ اس باغ کو ایک ایسی جگہ قرار دیا گیا ہے جہاں قرآنی الفاظ کے مطابق نہ بھوک تھی نہ پیاس، نہ گرمی تھی اور نہ عریانی۔ میراخیال ہے کہ اس کہانی میں جنت سے مراد انسان کی وہ نہایت ابتدائی حالت ہے جب کہ اس کا اپنے ماحول سے کوئی تعلق قائم نہ ہوا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن میں ہبوط آدم کے قصے کا اس کرۂ ارضی پر انسان کی پہلی نمود کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ اس (قصے) سے مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ کس طرح انسان اپنی ابتدائی حالت سے جب کہ وہ حیوانی خواہشات کا غیر شعوری طور پر محکوم تھا۔ ترقی کر کے اس حالت میں داخل ہوا۔ جس میں وہ شعور اور آزاد شخصیت کا مالک بنا اور شک اور نافرمانی کے قابل ہوا۔ یہ گویا احساس محض سے احساس خودی کی طرف ارتقاء کی پہلی منزل میں داخل ہونا ہے۔ جیسے انسان اپنی فطری خواب سے بیدار ہوکر اپہلی بار اپنی شخصیت کا احساس کرنے لگے۔‘‘
اس مقام تک انسان دیگر مخلوق کی طرح اپنی بقاء اور ارتقاء کے لئے مکمل طور پر وحی کا پابند تھا۔ یعنی اس جذبے کا جو اقبال کے الفاظ میں ایک پودے کو آزادی کے ساتھ پھیلنے پر آمادہ کرتا ہے یا قرآن کی رو سے جو شہد کی مکھی کی مختلف پودوں اور پھولوں سے رس حاصل کرنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن شعور (Reason) کے وجود میں آنے کے ساتھ وحی ختم نہیں ہوجاتی۔ ابھی عقل نے ایک مضبوط اور قابل اعتماد قوت کا درجہ حاصل کرنا ہے۔ ابھی تو وہ ایک نحیف سانو بیدار وصف ہے۔ اس حالت میں وحی کی امداد کو جاری رہنا تھا۔ لیکن ایک دوسرے ذریعۂ علم وہدایت کے وجود میں آنے کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہونا تھا کہ رہنمائی کے بارے میں وحی کا وہ مقام قائم نہ رہتا جو اس سے پہلے تھا۔ اس سے پہلے انسان کے لئے (کسی اور نام کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم قبل از بشر وجود کو بھی انسان کہنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ حقیقتاً یہ وجود عقل کی پیدائش سے ہی انسان کہلانے کا مستحق ہوا) وحی سے ہدایت پانے کے لئے اس کے ارادے کو کوئی دخل نہیں تھا۔