کی مکھی کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں اور درختوں میں اور ان اونچی جگہوں پر جو (اس غرض کے لئے) بنائی جاتی ہیں۔ اپنا چھتہ بنا اور پھر تمام پھلوں سے کھا اور اپنے رب کے رستوں پر فرمانبرداری سے چلی جا۔ ان کے پیٹوں سے پینے کی چیز نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اور اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے۔‘‘
۲… ’’سو خدا نے سات آسمانوں کو دو دن میں بنایا اور ہر آسمان میں اپنے امر کو وحی کیا اور ہم نے دنیا کے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا اور بڑی حفاظت کے ساتھ۔ یہ غالب علم والے کا اندازہ ہے۔‘‘
۳… ’’جب زمین ہلادی جائے گی اور وہ اپنے بوجھ نکال دے گی اور انسان کہے گا اسے کیا ہوا۔ اس دن وہ سب خبریں بیان کر دے گی۔ گویا تیرے رب نے اس کی خاطر وحی کی ہے۔‘‘
۴… ’’جب تیرا رب فرشتوں کی طرف وحی کرتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ سو جو ایمان لائے ان کو ثابت قدم رکھو۔‘‘
یہ سب مثالیں غیر انسان کی وحی کے متعلق ہیں۔ لیکن وحی سے مراد کیا ہے؟ اس کے بنیادی معنی یہ کئے گئے ہیں۔ نہایت خفیف لیکن بہت تیز اشارہ۔ جن قرآنی آیات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان سے نہ صرف وحی کی عمومی نوعیت ظاہر ہوتی ہے بلکہ اس کے مقصد کی بھی بہت حد تک وضاحت ہوتی ہے۔ مثلاً سورۃ النحل کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں وحی کی غرض شہد کی مکھی کو اس کے مقصد، تخلیق تک پہنچنے میں رہنمائی کرنا ہے۔ اس سے پہلے کی آیات بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ فطرت کے سامنے ایک مقصد ہے جو تمام جانداروں اور نباتات نے پورا کرنا ہے اور مقصد کے حصول کے لئے ایک ذریعہ ہدایت ہے۔ جو فطرت مہیا کرتی ہے۔ کہیں یہ ہدایت چارپایوں کے قویٰ کو ایک ایسی ساخت اور عمل اختیار کرنے پر مائل کرتی ہے۔ جس سے وہ انسانوں کو دودھ مہیا کرسکیں اور کہیں یہ مکھی کو اس راہ پر چلاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں شہد حاصل ہوتا ہے۔ ہر صورت میں وحی کا مقصد ایک ہی ہے۔ یعنی حصول مقصد حیات، اور غیر انسانی مخلوق میں یہ مقصد کسی نہ کسی شکل میں انسان کی ترقی میں معاون بنتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جمادات، نباتات اور تمام حیوانات میں اس فطری ہدایت کی صورت ایک نہیں ہوسکتی۔
کہیں ہم اسے اشیاء کے خواص کا نام دیتے ہیں۔ کہیں اسے جبلت کہتے ہیں اور کہیں الہام۔ لیکن اس ذریعہ ہدایت کی عمومی ماہیت ایک ہی ہے اور اقبال نے اس عمومی ماہیت کو سامنے