اعتقادات اور روایات کو منظم شکل دینے سے آگے نہیں جاسکتا اور اس سے ہم زندگی کے ٹھوس احوال پر قابو نہیں پاسکتے۔
معاملہ کو اس پہلو سے دیکھتے ہوئے پیغمبر اسلام قدیم اور جدید دنیا کے درمیان کھڑے معلوم ہوتے ہیں۔ اپنے پیغام کے ماخذ کے لحاظ سے وہ قدیم دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اس پیغام کی روح (Spirit) انہیں جدید دنیا سے وابستہ کرتی ہے۔ ان کی ذات میں زندگی نے اپنی جدید رہنمائی کے لئے مناسب اور پہلے سے مختلف ذرائع علم دریافت کئے ہیں۔ اسلام کی ابتداء قیاسی عقل کی پیدائش ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ میں اس امر کی نسبت (اس لیکچر میں) آپ کو کافی دلائل سے قائل کر سکوںگا۔‘‘
’’اسلام کے ذریعہ نبوت اپنے خاتمے کی ضرورت کے احساس کے ساتھ اپنے کمال تک پہنچتی ہے۔ اس سے مراد اس امر کا شدید احساس ہے کہ زندگی ہمیشہ کے لئے خارجی سہارے کی محتاج نہیں رہ سکتی اور یہ کہ خود شعوری کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ بالآخر انسان محض اپنی استعداد پر انحصار کرنے لگے۔ اسلام میںمذہبی پیشوائیت اور خاندانی بادشاہت کا خاتمہ اور قرآن میں بار بار عقل اور تجربہ سے خطاب اور اسی طرح اس کتاب کا نیچر اور تاریخ پر بطور ذرائع علم زور دینا۔ یہ سب امور اسی ایک تصور خاتمیت کے مختلف پہلو ہیں۔‘‘(خطبات اقبال پانچواں لیکچر)
آئیے علامہ اقبال کے ان خیالات کا ذرا تفصیل سے مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ موجودہ موضوع کی نسبت علامہ کے نظریات کی روشنی میں کون سے نتائج مترتب ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا غور طلب امر نبوت کی تعریف ہے۔ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ ہمارے نزدیک نبی سے مراد وہ شخص ہے جس پر وحی نازل ہو۔ اس خیال کی تائید میں ہم نے آیت ’’انما انا بشر یوحیٰ الی‘‘ پیش کی تھی۔ علامہ اقبال کے نزدیک وحی ایک عمومی ذریعہ رہنمائی ہے اور انسان تک محدود نہیں ہے۔ اس کے لئے علامہ نے قرآن پر انحصار کیا ہے اور کہا ہے کہ قرآن میں اس لفظ کے محل استعمال سے ظاہر ہے کہ قرآن وحی کو زندگی کا ایک عمومی خاصہ قرار دیتا ہے۔ اقبال کا اشارہ حسب ذیل قرآنی آیات کی طرف ہے۔
۱… ’’اور یقینا تمہارے لئے چار پایوں میں سبق ہے۔ ہم تمہیں اس چیز سے جو ان کے پیٹوں میں ہے۔ گوبر اور لید کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں۔ جو پینے والوں کے لئے خوشگوار ہے اور کھجوروں اور انگوروں کے میوؤں سے تم شراب اور اچھا رزق حاصل کرتے ہو۔ یقینا اس میں ان لوگوں کے لئے نشان ہیں۔ جو عقل سے کام لیتے ہیں اور تیرے رب نے شہد