جھلک دیکھی جا سکے۔ جس نے ان تصورات کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ لیکن قبل اس کے کہ میں اس بحث میں آگے چلوں، یہ ضروری ہے کہ اسلام کے ایک مہتمم بالشان تخیل کی ثقافتی اہمیت کو سمجھ لیا جائے۔ میری مراد نبوت کے سلسلہ کے انقطاع سے ہے۔
نبوت کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک طرح کا تصوفانہ شعور ہے۔ جس میں وجدانی تجربہ اپنی حدود سے باہر جانا چاہتا ہے اور اجتماعی زندگی کی قوتوں کی ازسرنو تشکیل یا ان کی جدید رہنمائی کے مواقع کا متلاشی ہوتا ہے۔ نبی کی شخصیت میں زندگی کا مرکز اپنی ہی ذات کی لامحدود گہرائیوں میں ڈوب کر تازہ قوت حاصل کر کے ابھرتا ہے۔ تاکہ قدیم نظام کو ختم کر کے زندگی کی نئی راہیں آشکار کرے۔ کسی ذات کا اپنے اصل کے ساتھ اس طرح کا الحاق انسان کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح قرآن نے لفظ وحی استعمال کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن اس کو زندگی کا ایک عمومی خاصہ قرار دیتا ہے۔ اگرچہ اس کی نوعیت اور خاصیت زندگی کے مختلف ارتقائی مدارج پر مختلف ہوتی ہے۔ ایک پودے کا آزادی کے ساتھ فضا میں پھیلنا، یا ایک حیوان کا اپنے نئے ماحول کی مناسبت کے لئے ایک نیا عضو بدن پیدا کرنا یا ایک انسانی وجود کا زندگی کی اندرونی گہرائیوں سے روشنی حاصل کرنا۔ یہ سب وحی کی مثالیں ہیں۔ جن کا اپنی خاصیت میں باہم اختلاف وحی (Inspiration) پانے والے وجود یا اس کی نوع کی ضروریات کے اختلافات کی وجہ سے ہے۔
نوع انسانی کی کم سنی کے دور میں ذہنی قوت وہ شے پیدا کرتی ہے جسے میں پیغمبرانہ شعور کا نام دیتا ہوں۔ یہ دراصل ایک طریقہ ہے جس کے ذریعہ فیصلہ، ردواختیار اور راہ عمل کے چند اصول مقرر کر لئے جاتے ہیں اور اس طرح انفرادی فکر واختیار میں کمی عمل میں لائی جاتی ہے۔ لیکن عقل اور جوہر استنباط کی پیدائش کے ساتھ زندگی اپنے مفاد کے لئے ان غیر عقلی ذرائع شعور کی نمود اور افزائش کو بند کر دیتی ہے۔ جن میں کہ اس کی ذہنی قوت انسانی ارتقاء کے نسبتاً ابتدائی دور میں جاری رہی تھی۔ ابتداً انسان جذبات اور فطری حسیات کے تابع تھا۔ قیاس کرنے والی عقل جو انسان کو اپنے ماحول پر قادر بناتی ہے۔ ایک حاصل کی ہوئی استعداد ہے۔ اس استعداد کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی اس کی مزید تقویت کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ علم کے دیگر ذرائع کی مناہی کر دی جائے۔ اس میں شک نہیں کہ قدیم دنیا نے انسان کے ابتدائی دور میں جب کہ وہ کم وبیش القاء (Suggestion) کے تابع تھا۔ فلسفہ کے بعض اہم سسٹم پیدا کئے۔ لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ قدیم دنیا کا یہ طریق کار نظری خیالات کے عمل کا نتیجہ تھا۔ یہ طریقہ مبہم مذہبی