موجودہ موضوع کے لئے ہم تشکیل نو کے پانچویں لیکچر (مسلم ثقافت کی روح) سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اقتباس خاصا طویل ہوگا۔ لیکن اس کا ہر فقرہ اپنے اندر ایک وسیع مضمون لئے ہوئے ہے۔ اس لئے کوئی حصہ حذف نہیں ہوسکتا۔
علامہ نے اس خطبے کی ابتداء ایک مشہور صوفی کے اس قول سے کی ہے۔ ’’محمد عربیؐ عرش معلی تک پہنچے اور واپس آگئے۔ خدا کی قسم، اگر میں اس مقام تک پہنچتا تو کبھی واپس نہ آتا۔‘‘
اس کے بعد علامہ لکھتے ہیں: ’’یہ قول ایک عظیم مسلمان ولی اﷲ عبدالقدوس گنگوہیؒ کا ہے۔ غالباً تمام صوفیانہ ادب میں اس طرح کے دوسرے الفاظ مشکل سے ملیںگے۔ جن کے ذریعہ ایک ہی فقرہ میں پیغمبرانہ اور صوفیانہ شعور کے باہم فرق کی نسبت اتنے شدید ادراک کا اظہار ہوتا ہو۔ صوفی اپنے وجدانی تجربے کے سکون سے باہر نہیں آنا چاہتا اور جب باامر مجبوری وہ اس تجربہ سے باہر آتا ہے تو اس کی واپسی دیگر نوع انسانی کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ لیکن نبی کی واپسی تخلیق جو ہوتی ہے وہ واپس ہوکر اپنے آپ کو وقت کے دھارے میں ڈال کر زمانہ کے محرکات کو قابو میں لاتا ہے اور اس طرح نظریات کا ایک نیا عالم پیدا کرتا ہے۔ صوفی کے لئے فنافی الوجود کا سکون منتہائے مقصد ہے۔ اس کے برعکس نبی میں اس مقام سے وہ دنیا کو ہلادینے والی نفسیاتی قوتیں بیدار ہوتی ہیں۔ جن کا مقصد ٹھوس حقائق کے عالم میں ایک مکمل انقلاب برپا کرنا ہوتا ہے۔ نبی کی غالب ترین خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کا مذہبی تجربہ ایک زندہ عالمی قوت کی تشکیل اختیار کرے۔ اس طرح نبی کی واپسی ایک قسم کا عملی ثبوت ہے۔ جس سے اس کے مذہبی تجربہ کی اہمیت کا انداز ہوتا ہے۔ پیغمبر کی خودی اپنے تخلیقی عمل میں اپنے آپ کو جانچتی ہے اور حقائق کی اس بیرونی دنیا کو بھی جس میں وہ خود کو متشکل کرنے کے لئے کوشاں ہوتی ہے۔ ایک بظاہر ناقابل تسخیر مادی ماحول میں اپنی راہ بناتے ہوئے نبی خود کو اپنی ذات پر آشکار کرتا ہے اور زمانہ کی آنکھ کے لئے اپنے وجود کو بے حجاب کرتا ہے۔ اس لئے نبی کی مذہبی تجربہ کی وقعت کو پرکھنے کا ایک ذریعہ یہ ہوسکتا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس نے کس طرح کی انسانی جماعت پیدا کی ہے اور کس قسم کی ثقافتی دنیا اس کے پیغام کی روح سے پھوٹی ہے۔ موجودہ لیکچر میں میں صرف مؤخر الذکر خیال پر اکتفا کروںگا۔ یہاں میری غرض علم کی دنیا میں اسلام کے کارناموں کی تفصیل بیان کرنا ہے۔ اس کی بجائے میں آپ کی توجہ اسلامی تمدن کے چند بنیادی تصورات پر مرکوز کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ نظریات آفرین عمل پوری طرح نگاہ کے سامنے آجائے۔ جو ان تصورات کی تہ میں ہے اور اس طرح اس نفس کی بھی ایک معمولی سی