اپنے چند الہامات لکھنے کے بعد اس آیت کو بطور آیت قرآن ان الہامات کی تائید میں پیش کیا ہے۔ چنانچہ براہین احمدیہ کی اصل عبارت یہ ہے۔ پھر بعد اس کے فرمایا: ’’ان انزلنٰہ قریباً من القادیان وبالحق انزلناہ وبالحق نزل۰ صدق اﷲ وصدق رسولہ وکان امراﷲ مفعولا‘‘ یعنی ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اس الہام پر از معارف وحقائق کو قادیان کے قریب اتارا ہے اور ضرورت حقہ کے ساتھ ساتھ اتارا ہے اور بضرورت حقہ اترا ہے۔ خدا اور اس کے رسول نے خبر دی تھی کہ جو اپنے وقت پر پوری ہوئی اور جو کچھ خدا نے چاہا تھا وہ ہونا ہی تھا۔ یہ آخری فقرات اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کے ظہور کے لئے نبی کریمﷺ اپنی حدیث متذکرہ بالا میں اشارہ فرماچکے ہیں اور خداتعالیٰ اپنے کلام مقدس میں اشارہ فرماچکے ہیں۔ چنانچہ وہ اشارہ حصہ سوم کے الہامات میں درج ہوچکا ہے اور فرقانی اشارہ اس آیت میں ہے۔ ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم حاشیہ در حاشیہ نمبر۲ ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳)
۲… دوسرا حوالہ جس پر مرزاقادیانی نے انحصار کیا ہے۔ وہ (براہین احمدیہ ص۵۰۵ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳، خزائن ج۱ ص۶۰۱) پر واقعی بطور الہام درج ہے۔ لیکن وہاں اصل عبارت اور مرزاقادیانی کا کیا ہوا ترجمہ اور تشریح اس طرح ہے۔
’’خلق آدم فاکرمہ‘‘ پیدا کیا آدم پس اکرام کیا اس کا۔ ’’جری اﷲ فی حلل الانبیائ‘‘ جری اﷲ نبیوں کے حلوں میں۔ اس فقرہ الہامی کے یہ معنی ہیں کہ منصب ارشاد وہدایت اور مورد وحی الٰہی ہونے کا دراصل حلہ انبیاء ہے اور ان کے غیر کو بطور مستعار ملتا ہے اور حلہ انبیاء امت محمدیہ کے بعض افراد کو بغرض تکمیل ناقصین ہوتا ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ ’’علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل‘‘ پس یہ لوگ اگرچہ نبی نہیں پر نبیوں کا کام ان کے سپرد کیا جاتا ہے۔‘‘
ہم حیران ہیں کہ اس عبارت سے وہ مطلب کیسے نکل سکتا ہے جو مرزاقادیانی نے اپنے رسالہ (ایک غلطی کا ازالہ ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۰۷) میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ’’میری نسبت یہ وحی اﷲ ہے۔ ’’جری اﷲ فی حلل الانبیائ‘‘ یعنی خدا کا رسول نبیوں کے حلوں میں۔‘‘
۳… تیسرا حوالہ ایک قرآنی آیت کا ہے۔ ’’محمد رسول اﷲ والذین معہ‘‘ گو اصل کتاب میں اس آیت اور بعض دیگر آیات کو کچھ غیرقرآنی عربی عبارت سے مخلوط کر کے ایک مبہم کلام کی عجیب سی صورت پیداکر دی گئی ہے۔