میں ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ لکھی گئی تھی۔ اس کتاب میں تمام وہی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ جن کا تعلق نزول مسیح سے ہے۔ اگر یہ تمام احادیث محرف اور موضوع ہیں تو پھر انہی کی بناء پر آپ کا دعویٰ مسیحیت ونبوت کیوں کر جائز ٹھہرا؟
احمدی بھائیو! بات بالکل سیدھی سی ہے۔ قرآن میں کسی مسیح کی آمد کا ذکر موجود نہیں۔ احادیث موضوع ومحرف ہیں۔
مرزاقادیانی انہی احادیث کا سہارا لے کر مسیح موعود ورسول بنے ہیں۔ انصافاً کہو کہ کیا حدیث کی سند قابل اعتماد ہے؟ اگر نہیں تو پھر مرزاقادیانی کا دعوائے رسالت کیونکر صحیح ہوا؟ اگر میں غلطی پر ہوں تو مجھے سمجھائیے اور اگر میری دلیل میں کوئی وزن موجود ہے تو خود مان جائیے۔ ہمارا قبلہ ایک، کتاب ایک، تمدن ایک، فلسفہ ایک، تہذیب ایک، لباس ایک، صورت شکل، سوچنے کا ڈھنگ ایک، روایات ایک، اسلاف ایک، سب کچھ تو پھر ہم ایک دوسرے سے الگ کیوں کر رہیں ؎
اب اور نہ ترساؤ
یا ہم کو بلا بھیجو یا آپ چلے آؤ
ایک اور الجھن
مسیح موعود اور مثیل مسیح میں بڑا فرق ہے۔ مسیح موعود سے مراد بعینہ وہ مسیح ہے جس کے آنے کی بشارت احادیث میں موجود ہے اور مثیل سے مراد ایسا شخص ہے جو مسیح موعود سے بعض صفات میں ملتا جلتا ہو۔
رستم ایک ہی تھا۔ لیکن رستم جیسے (مثیل رستم) پہلوان بہتیرے ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح مسیح موعود ایک معیّن شخصیت ہے۔ جس کے مثیل بے شمار ہوسکتے ہیں۔ سارا ہندوستان حکیم اجمل خاں کو مسیح الملک کہتا تھا۔ اس لئے کہ بیماروں کو شفا دینے میں انہیں حضرت مسیح کی طرح یدطولیٰ حاصل تھا۔ مرزاقادیانی کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا ہے۔ ’’مجھے اس خدا کی قسم جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افتراء کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بناکر مجھے بھیجا ہے۔‘‘
(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ تبلیغ رسالت ج۱۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۳۵)
’’میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں وہ مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں پیش گوئیاں ہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۱۸، خزائن ج۱۷ ص۲۹۵)