کا دعویٰ قابل قبول ہوسکتا ہے؟ قرآن کی پوری ایک سو آیات ختم رسالت کا اعلان کر چکی ہیں۔ پوری دوسو دس احادیث تائید کے لئے موجود ہیں۔ خودمرزاقادیانی کے کئی سواقوال مدعی نبوت کو کافر وکذاب قرار دیتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ ان حالات میں ہم کسی صاحب کو نبی تسلیم کریں تو کسی بنیاد پر؟
پھر جس حدیث کی بناء پر مرزاقادیانی نے دعویٰ نبوت کیا ہے۔ اس میں مسیح موعود کے آنے کا ذکر نہیں۔ بلکہ مسیح بن مریم کے نزول کا ذکر ہے۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ قرآن کی رو سے حضرت مسیح وفات پاچکے ہیں۔ تولازماً اس حدیث کو غلط قرار دینا ہوگا۔ ایسی غلط حدیث کو لے کر پہلے بصد تکلف مثیل مسیح بننا۔ پھر مسیح بن مریم ہونے کا اعلان کرنا۔ اس کے بعد اپنے آپ کو مسیح موعود سمجھنا اور آخر میں ایک مستقل رسول بن کر مسلمانوں کے سامنے آجانا کہاں تک جائز ہے؟ مرزاقادیانی درست فرماتے ہیں کہ تمام حدیثیں تحریف معنوی ولفظی سے آلودہ یاسرے سے موضوع ہیں اور ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے۔ ’’جب قرآن مسیح ابن مریم کو مارتا ہے اور حدیثیں مثیل (حدیث میں مثیل کا لفظ کہیں موجود نہیں۔ برق) ابن مریم کے آنے کا وعدہ کرتی ہیں تو اس صورت میں کیا اشکال باقی رہا۔‘‘ (ازالہ اوہام ج۲ ص۵۳۶، خزائن ج۳ ص۳۸۸)
مطلب یہ کہ میں حدیثوں کی رو سے مثیل مسیح بن کر آیا ہوں اور جس حدیث میں مسیح بن مریم کے آنے کا ذکر ہے اس سے مراد مثیل مسیح ہے اور ہر ایسی حدیث جو مسیح بن مریم کے آنے کی خبر دیتی ہے وہ اوّل درجہ کی قابل اعتبار ہے۔ ’’یہ کمال درجہ کی بدنصیبی اور بھاری غلطی ہے کہ یک لخت تمام حدیثوں کو ساقط الاعتبار سمجھ لیں… یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اوّل درجہ کی پیش گوئی ہے۔ جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ج۲ ص۵۵۷، خزائن ج۳ ص۴۰۰)
اور یہ بھی ملاحظہ ہو: ’’اس زمانے کے بعض نادان کئی دفعہ شکست کھا کر پھر مجھ سے حدیثوں کی رو سے بحث کرنا چاہتے ہیں… وہ اپنی چند ایسی حدیثوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے جو محض ظنّیات کا ذخیرہ اور مجروح ومخدوش ہیں… خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ یہ تمام حدیثیں جو پیش کرتے ہیں۔ تحریف لفظی یا معنوی میں آلودہ ہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۰ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۵۱)
علمائے اسلام جو احادیث مرزاقادیانی کے سامنے پیش کرتے تھے۔ ان تمام کا تعلق مسیح ابن مریم اور دجال وغیرہ سے تھا۔ ملاحظہ ہو۔ پیر صاحب گولڑہ کی ’’سیف چشتیائی‘‘ جن کی تردید