یہ بھی واضح ہے کہ مرزاقادیانی کے دعویٰ میں یہ مسلسل تبدیلی کسی اندرونی روشنی یا نئے الہام کی وجہ سے نہیں ہورہی تھی۔ بلکہ خارجی حالات اور لوگوں کا مرزاقادیانی کی نسبت ردعمل اس تبدیلی کا باعث تھے۔ چنانچہ ۱۸۹۰ء کے بعد جب مخالفت زور پکڑ گئی اور دعویٰ نبوت کی بناء پر ہندوستان کے بیشتر علماء کی طرف سے مرزاقادیانی کے خلاف کفر کے فتوے شائع کئے گئے اور ان کے مریدوں کا مقاطعہ ہونے لگا اور ہر طرح کی تکالیف انہیں پہنچائی جانے لگیں تو مرزاقادیانی نے ہر ممکن تاویل کے ساتھ اپنے دعاوی کو ایک معتدل اور قابل برداشت شکل دینے کی کوشش کی اور بالآخر یہ اعلان کر دیا کہ: ’’تمام مسلمانوں کی خدمت میں گذارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح اسلام توضیح المرام وازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا کہ یہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے۔ یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں ہیں۔ سو میں تمام مسلمان بھائیوں کی خدمت میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ ان لفظوں سے ناراض ہیں تو ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرماکر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں۔ کیونکہ کسی طرح مجھ کو مسلمانوں میں تفرقہ اور نفاق ڈالنا منظور نہیں ہے۔ مجھے اپنے مسلمان بھائیوں کی دل جوئی کے لئے اس لفظ (نبی) کو دوسرے پیرایہ میں بیان کرنے سے کیا عذر ہوسکتا ہے۔ سو دوسرا پیرایہ یہ ہے کہ بجائے لفظ نبی کے محدث کا لفظ ہر جگہ سمجھ لیں اور اس کو یعنی لفظ نبی کو کاٹا ہوا خیال فرمائیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۱۳،۳۱۴)
مسلمانوں کو تفرقہ اور نفاق سے بچانا ایک مبارک خیال ہے۔ لیکن اگر خدا نے مرزاقادیانی کا نام نبی رکھا تھا تو یہ حق مرزاقادیانی کو کیونکر حاصل ہوگیا کہ خدا کے کلام میں نبی کے لفظ کو محدث سے تبدیل کر ڈالیں۔ کیا کسی مامور من اﷲ کا یہ منصب ہوسکتا ہے کہ انسانوں کے ڈر سے اس مقام سے خود کو گرالے۔ جہاں کہ خدا نے اسے کھڑا کیا ہے۔ یاد رہے کہ مرزاقادیانی نے اس پر اکتفا نہیں کیا کہ یہ کہہ دیں کہ ان کی تحریر میں لفظ نبی سے مراد صرف محدث ہے۔ بلکہ فرمایا کہ ان کی کتب میں لفظ نبی کو کاٹا ہوا خیال کیا جائے اور اس قسم کی عبارت کو ترمیم شدہ تصور کیا جائے۔
یہ امر بجائے خود دلچسپ ہے کہ ان کتب کے بعد کے ایڈیشنوں میں بھی لفظ نبی کو محدث سے بدلا نہیں گیا۔ حالانکہ مسلمانوں کو تفرقہ اور نفاق سے بچانے کا یہ ایک آسان طریقہ ہوسکتا تھا۔ لیکن مرزاقادیانی کے سامنے دو مقاصد تھے۔ مریدوں کی عقیدت کو قائم رکھنا اور زیادہ کرنا اور مخالفین کی ناراضگی کو کم کرنا۔ اس لئے متعلقہ الفاظ کو ترمیم وتبدیل نہیں کیا اور نہ فی الواقع کاٹا ہے۔ بلکہ یہ میانہ روی اختیار کی ہے کہ نبی کے الفاظ والی عبارت تو جوں کی توں رہے۔ لیکن جو