کرے اس پر بڑی آسانی سے یہ الزام عائد ہوسکتا تھا کہ یہ شخص فی الواقع محب رسول نہیں ہے۔ یہ نہیں چاہتا کہ ہمارے نبی کو دیگر انبیاء پر فضیلت حاصل ہو۔
اسی طرح مرزاقادیانی نے شروع میں اپنے تمام نشانات اور معجزات کو محمد رسول اﷲﷺ اور اسلام کی صداقت اور برتری کے ثبوت میں پیش کیا۔ ہندوستان کی مذہبی تاریخ میں اس زمانہ کو مناظرہ اور مجادلہ کا دور کہہ سکتے ہیں۔ مختلف مذاہب کے متعصب ترین طبقے ایک دوسرے کے بزرگوں پر ناروا حملے کرنے میں مسابقت کر رہے تھے اور ایک غیر ملکی حکومت کے تحت غلامی کے ساتھ امن کی فضا اس قسم کے بے مقصد مباحثات کے لئے سازگار تھی۔ بلکہ یہ جھگڑے اس حکومت کے استحکام میں ممد تھے اور حکومت ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی۔ یہ حالات تھے جب مرزاقادیانی نے اپنے آپ کو قوم کے سامنے اسلام کے پہلوان کی حیثیت میں پیش کیا۔ جس نے اپنی زندگی کا مشن دیگر مذاہب بالخصوص آریوں اور عیسائیوں کے مقابلے میں اسلام کی برتری ثابت کرنا قرار دیا تھا۔ جب مقابلہ ہورہا ہو تو بہت کم تماشائی اپنے پہلوانوں کو عیب اور نقائص دیکھتے ہیں۔
ان حالات نے مرزاقادیانی کے لئے یہ ممکن کر دیا کہ اپنی کتب میں عجز اور انکساری کے الفاظ اور انتہائی غلو اور تعلّی کے کلمات ایک ساتھ استعمال کرتے چلے گئے اور معاملے کو اس حد تک غلط ملط کردیا کہ مجموعی طور پر تمام کتب ایک چیستان بن کر رہ گئیں۔ جس پر نہایت دیانتداری سے غور کرنے سے بھی قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ مرزاقادیانی کا دعویٰ کیا تھا؟
ممکن ہے ہماری یہ رائے غلط ہو۔ لیکن مرزاقادیانی کی کب پڑھنے سے ہم پر یہ اثر ہوا ہے کہ مرزاقادیانی کا یہ عمل غیر شعوری اور نادانستہ نہیں تھا۔ موجودہ خلیفہ مرزامحمود احمد قادیانی کی کتاب (حقیقت النبوۃ ص۱۲۴) کا ایک اقتباس ہم اس باب میں پیش کرچکے ہیں۔ اپنے موجودہ مفہوم کی وضاحت کے لئے ہم اس اقتباس کا ایک حصہ یہاں نقل کرنا چاہتے ہیں۔ خلیفہ صاحب نے لکھا ہے: ’’(مرزاقادیانی) اپنے آپ کو محدث کہتے رہے اور نہیں جانتے تھے کہ میں دعویٰ کی کیفیت تو وہ بیان کرتا ہوں جو نبیوں کے سوائے اور کسی میں نہیں پائی جاتی اور نبی ہونے سے انکار کرتا ہوں۔‘‘ اگر اس اقتباس میں سے پہلا لفظ ’’نہیں‘‘ حذف کردیا جائے تو یہ عبارت مرزاقادیانی کی ذہنی کیفیت کے بارے میں ہماری رائے کو درست طور پر ظاہر کر دے گی۔ یعنی مرزاقادیانی جانتے تھے کہ میں دعویٰ کی کیفیت تو وہ بیان کرتا ہوں……الخ۔