جس کے متعلق کہا جاسکے کہ اس سے پہلے مرزاقادیانی اپنے آپ کو غیر نبی سمجھتے تھے اور اس کے بعد نبی قرار دینے لگے۔ اس کے مقابلے میں یہ بھی غلط ہے کہ انہوں نے دعویٰ میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنی پہلی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی تصنیف سے لے کر اپنی وفات تک مرزاقادیانی متواتر اپنے دعویٰ میں ترمیم اور تبدیلی کرتے رہے۔ لیکن بتدریج اور غیر محسوس طور پر اس عمل کو کامیابی کے ساتھ نبھانے کے لئے مرزاقادیانی نے ایک ایسی تکنیک نہایت درجہ کمال کے ساتھ استعمال کی ہے جس میں ہماری رائے میں وہ تقریباً منفرد ہیں۔ اس تکنیک کے اہم اجزاء طوالت کلام، تاویل، استعارہ، خلط مبحث اور الفاظ کو غیر معروف معنوں میں استعمال کرنا ہے۔ اس کتاب میں ان تمام خصوصیات پر مفصل بحث کرنا ممکن نہیں۔ اس کے لئے قارئین کو خود مرزاقادیانی کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ مرزاقادیانی نے مسلمانوں کے مستقیم الرائے علماء کے طبقہ کے مخصوص اعتقادات (جن میں سے بیشتر فی الواقع غلط تھے) سے بھی پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ ہندوستان اور بالخصوص پنجاب میں پیر پرستی اور مجذوب قسم کے لوگوں کی نسبت خوش اعتقادی کا جو ماحول قائم ہوچکا تھا۔ اس نے بھی مرزاقادیانی کی امداد کی۔ ان پہنچے ہوئے اصحاب کی طرف سے عوام ہر طرح کے کفر اور شرک کے کلمات سننے کے عادی ہوگئے تھے۔ بلکہ الٰہی کلمات کی وجہ سے ان کو پہنچا ہوا تصور کرتے تھے۔
ان حالات نے مرزاقادیانی کے تعلّی آمیز دعاوی کو قابل برداشت بنادیا۔ بالخصوص اس لئے کہ مرزاقادیانی اپنی ہر فضیلت کے ساتھ بڑے زوردار الفاظ میں یہ کہا کرتے تھے کہ میرا کوئی شرف ذاتی نہیں ہے۔ یہ سب محمد رسول اﷲﷺ سے کامل اتباع کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ ان کی کتب اس قسم کی عبارتوں سے بھری پڑی ہیں۔
ایں چشمۂ رواں کہ بخلق خدا دہم
یک قطرہ زبحر کمال محمد است
(درثمین فارسی ص۶۹، منقول از ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر مورخہ یکم مارچ ۱۸۸۴ئ)
’’کل برکۃ من محمدﷺ فتبارک من علم وتعلم‘‘ یعنی ہر ایک برکت آنحضرتﷺ کی طرف سے ہے۔ پس بہت برکت والا وہ انسان ہے جس نے تعلیم دی۔ یعنی آنحضرتﷺ اور پھر بعد اس کے بہت برکت والا وہ ہے جس نے تعلیم پائی۔ یعنی یہ عاجز۔ ‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۸۷، خزائن ج۳ ص۴۱۷)