میں ختم ہوگئے ہیں۔ کتاب کا باقی حصہ زیادہ تر ان پیش گوئیوں پر مشتمل ہے جن کی نسبت مرزاقادیانی کا ادعاء ہے کہ پوری ہوچکی ہیں۔ ان میں سے اکثر پیش گوئیوں کا ذکر مرزاقادیانی کی پہلی کتب میں آچکا تھا۔ یہاں ان سب کو جمع کر دیا گیا ہے۔
ہم اس کتاب کے تیسرے باب (ص۱۴،۲۲، خزائن ج۲۲ ص۱۶،۲۵) سے چند اقتباسات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جن سے ظاہر ہوگا کہ مرزاقادیانی نے خود اکمل اور اصفیٰ وحی کی کیا کیفیت بیان کی ہے جو ان کے کہنے کے مطابق کامل شرف مکالمہ ومخاطبہ کے نتیجے میں نازل ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں: ’’خداتعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنے والے اس شخص سے مشابہت رکھتے ہیں۔ جو اوّل دور سے آگ کی روشنی دیکھے اور پھر اس سے نزدیک ہو جائے۔ یہاں تک کہ اس آگ میں اپنے تئیں داخل کر دے اور تمام جسم جل جائے اور صرف آگ ہی باقی رہ جائے۔ یہ امر کہ خداتعالیٰ سے کسی کا کامل تعلق ہے۔ اس کی بڑی علامت یہ ہے کہ صفات الٰہیہ اس میں پیدا ہوجاتی ہیں اور بشریت کے رذائل شعلۂ نور سے جل کر ایک نئی ہستی پیدا ہوتی ہے۔ منجملہ ان علامات کے یہ بھی ہے کہ خداتعالیٰ اپنا فصیح اور لذیذ کلام وقتاً فوقتاً اس کی زبان پر جاری کرتا ہے جو الٰہی شوکت اور برکت کی کامل طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک نور اس کے ساتھ ہوتا ہے جو بتلاتا ہے کہ یہ یقینی امر ہے۔ ظنی نہیں ہے۔ خداتعالیٰ کا کلام اس پر اسی طرح نازل ہوتا ہے جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں اور رسولوں پر نازل ہوتا ہے اور وہ ظن سے پاک اور یقینی ہوتا ہے۔ اس کی آنکھ کو کشفی قوت عطاء کی جاتی ہے۔ جس سے وہ مخفی در مخفی خبروں کو دیکھ لیتا ہے اور بسا اوقات لکھی ہوئی تحریریں اس کی نظر کے سامنے پیش کی جاتی ہیں اور مردوں سے زندوں کی طرف ملاقات کر لیتا ہے اور بسا اوقات ہزاروں کوس کی چیزیں اس کی نظر کے سامنے ایسی آجاتی ہیں۔ گویا وہ پیروں کے نیچے پڑی ہیں۔ ایسا ہی اس کے کانوں کو بھی مغیبات کے سننے کی قوت دی جاتی ہے اور اکثر اوقات وہ فرشتوں کی آواز سن لیتا ہے اور عجیب تر یہ کہ بعض اوقات جمادات اور نبادات اور حیوانات کی آواز بھی اس کو پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح اس کی ناک کو بھی غیبی خوشبو سونگھنے کی ایک قوت دی جاتی ہے اور بسااوقات وہ بشارت کے امورکو سونگھ لیتا ہے اور مکروہات کی بدبو اس کو آجاتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس اس کے دل کو قوت فراست عطاء کی جاتی ہے اور بہت سی باتیں اس کے دل میں پڑ جاتی ہیں اور وہ صحیح ہوتی ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس شیطان اس پر تصرف کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔ اور یا بباعث نہایت درجہ فنافی اﷲ ہونے کے اس کی زبان ہر وقت خدا کی زبان ہوتی ہے اور اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور اگرچہ اسے خاص طور پر الہام بھی نہ ہو۔ تب بھی جوکچھ اس کی زبان پر جاری ہوتا