مناسب سمجھا کہ حق اور باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ رسالہ لکھوں۔ الہام کے مدارج پر بحث کرتے ہوئے مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’ایسی خوابیں اور ایسے الہام مختلف قسم کے لوگوں کو ہوتے رہتے ہیں۔ بلکہ کبھی کبھی سچے بھی ہوجاتے ہیں اور ایسے آدمی اس ملک میں پچاس سے بھی زیادہ ہیں۔ جو الہام اور وحی کے مدعی ہیں اور ان لوگوں کا ایسا وسیع دائرہ ہے کہ کوئی شرط سچے مذہب اور نیک چلنی کی بھی نہیں تو اس صورت میں کوئی عقل مند ایسا نہ ہوگا کہ اس عقیدہ کو حل کرنے کے لئے اپنے دل میں ضرورت محسوس نہ کرے کہ مابہ الامتیاز کیونکر قائم ہو۔ بالخصوص جب کہ اس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ باوجود اختلاف مذہب اور عقیدہ کے ہر ایک فرقہ کے لوگوں کو خوابیں اور الہام ہوتے ہیں…… تو اس صورت میں حق کے طالبوں کی راہ میں یہ ایک خطرناک پتھر ہے اور خاص کر ایسے لوگوں کے لئے یہ ایک زہر قاتل ہے جو خود مدعی الہام ہیں اور اپنے تئیں من جانب اﷲ ملہم خیال کرتے ہیں اور دراصل خدا تعالیٰ سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور وہ اس دھوکے سے جو کوئی خواب ان کی سچی ہو جاتی ہے اپنے تئیں کچھ چیز سمجھتے ہیں۔ پس یہی وہ امر ہے جس نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں اس فرق کو حق کے طالبوں پر ظاہر کروں۔ سو میں اس کتاب کو چار باب پر منقسم کرتا ہوں۔ باب اوّل ان لوگوں کے بیان میں جن کو بعض سچی خوابیں آتی ہیں۔ یا بعض سچے الہام ہوتے ہیں۔ لیکن ان کو خداتعالیٰ سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ باب دوم ان لوگوں کے بیان میں جن کو بعض اوقات سچی خوابین آتی ہیں یا سچے الہام ہوتے ہیں اور ان کو خداتعالیٰ سے کچھ تعلق تو ہے۔ لیکن بڑا تعلق نہیں۔ باب سوم ان لوگوں کے بیان میں جو خداتعالیٰ سے اکمل اور اصطفیٰ طور پر وحی پاتے ہیں اور کامل طور پر مشرف مکالمہ اور مخاطبہ ان کو حاصل ہے اور خوابیں بھی ان کو فلق الصبح کی طرح سچی آتی ہیں اور خداتعالیٰ سے اکمل اور اتم اور اصفیٰ تعلق رکھتے ہیں۔ جیسا کہ خداتعالیٰ کے پسندیدہ نبیوں اور رسولوں کا تعلق ہوتا ہے۔ باب چہارم اپنے حالات کے بیان میں یعنی اس بیان میں کہ خداتعالیٰ کے فضل اور کرم نے مجھے ان اقسام ثلاثہ میں سے کس قسم میں داخل فرمایا ہے۔
(حقیقت الوحی ص۴،۵،خزائن ج۲۲ص۷،۶)
وحی کی حقیقت اور اس پر ایک ایسے شخص کی بحث جو اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ اسے خدا کے مقرب انبیاء کی طرح شرف مکالمہ اور مخاطبہ حاصل ہے ایک نہایت دلچسپ کتاب ہونی چاہئے تھی۔ لیکن مرزاقادیانی نے موضوع کے اصولی پہلو پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ ان متعدد ضمیموں اور اشتہارات کو شامل کر کے جو کہ اس کتاب کا جزو ہیں کتاب کا حجم قریباً سات سو صفحات ہے۔ اس میں سے پہلے تین ابواب جن میں مسئلہ کے بنیادی اصولوں پر بحث کی گئی ہے۔ صرف چھپن صفحات