ادعی النبوۃ وقال انی من النبیین اما الجواب فاعلم یا اخی انی ما ادعیت النبوۃ وما قلت لہم انی نبی ولکن تعجلوا واخطاؤا فی فہم قولی‘‘ اور جو لوگ مجھے کافر کہتے ہیں ان کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور یہ کہ میں نے کہا ہے کہ میں نبیوں میں سے ہوں۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ اے بھائی! جان لے کہ میں نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ میں نے ان کو کہا ہے کہ میں نبی ہوں۔ ان لوگوں نے جلد بازی سے کام لیا ہے اور میری بات کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔
(حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۶)
یہ حوالے کسی تشریح کے محتاج نہیں ہیں۔ اب مرزامحمود احمد قادیانی کے اس خیال پر دوبارہ غور کیجئے کہ: ’’آپ نبی کا نام اختیار کرنے سے انکار کرتے رہے اور نہیں جانتے تھے کہ میں دعویٰ کی کیفیت تو وہ بیان کرتا ہوں جو نبیوں کے سوا اور کسی میں نہیں پائی جاتی اور میں نبی ہونے سے انکار کرتا ہوں۔‘‘ا س سے ظاہر ہوا کہ اس زمانے میں بھی اس بارے میں مرزاقادیانی کی پوزیشن غلط تھی اور ان کے مقابلے میں ان کے مخالفین کی درست تھی۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ نبی کی تکذیب کرنے والے تو اس کے الہام کا مطلب درست سمجھ رہے ہیں۔ لیکن خود ملہم یہ مفہوم سمجھنے سے قاصر ہو۔
۸… پھر اس وحی اور الہام کے درجے اور نوعیت کے تعین کا بھی سوال ہے۔ جس کی وجہ سے مرزاقادیانی اتنا عرصہ مغالطے میں مبتلا رہے۔ خود مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (حقیقت الوحی ص۱تا۵، خزائن ج۲۲ ص۳تا۷) میں اس امر پر بحث کی ہے کہ وحی کی شان کے اعتبار سے ملہمین کے کئی مدارج ہوتے ہیں۔ یہ کتاب مرزاقادیانی نے اپنی وفات سے صرف ایک سال پہلے لکھی تھی اور تمہید میں اس کی تصنیف کی غرض ان الفاظ میں بیان کی ہے۔
’’واضح ہو کہ مجھے اس رسالے کے لکھنے کے لئے یہ ضرورت پیش آئی ہے کہ اس زمانے مین جس طرح اور صدہا طرح کے فتنے اور بدعتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ یہ بھی ایک بزرگ فتنہ پیدا ہوگیا ہے کہ اکثر لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ کس درجہ اور کس حالت میں کوئی خواب یا الہام قابل اعتبار ہوسکتا ہے اور کن حالتوں میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ شیطان کا کلام ہو نہ خدا کا اور حدیث النفس ہو نہ حدیث الرب۔‘‘
آگے چل کر مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ اکثر لوگ اس سے بے خبری کی وجہ سے سخت ابتلا میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی نظر میں سلسلۂ نبوت اس سے مشتبہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے میں نے