’’اگر مسٹر ڈوئی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپور کے روبرو میں نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی (مرزاقادیانی کا سب سے بڑا دشمن اور منکر) کو کافر نہیں کہوںگا۔ تو واقعی میرا یہی مذہب ہے کہ میں کسی مسلمان کو کافر نہیں جانتا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۳۱، خزائن ج۱۵ ص۴۳۳،۴۳۴)
’’ابتداء سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعویٰ کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہوسکتا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۳۰، خزائن ج۱۵ ص۴۳۲)
’’اب مگر میاں عبدالحق اپنے قصور فہم کی وجہ سے مجھے کاذب خیال کرتے ہیں۔ لیکن میں انہیں کاذب نہیں کہتا۔ بلکہ محظی (خطا کار) جانتا ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام ج۲ ص۶۳۷، خزائن ج۳ ص۴۴۴)
احادیث از بس ناقابل اعتماد ہیں۔ امام بخاری کے عہد میں ان کا تعداد چودہ لاکھ تھی۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں مکررات کو چھوڑ کر صرف چار ہزار احادیث درج کیں اور باقی سب کو مسترد کردیا۔ اس ذخیرے میں بے شمار تضاد اوہام کی بہتات اور غلط سلط باتوں کی بھرمار ہے۔ حضورﷺ پر جو کتاب نازل ہوئی۔ وہ قرآن تھا۔ حدیث نہیں تھی۔ ہمارا ایمان قرآن پر ہے نہ کہ حدیث پر۔ اس لئے اگر کوئی شخص کسی حدیث کی بناء پر کوئی دعویٰ کرے۔ تو وہ قابل توجہ نہیں۱؎۔ ’’احادیث تو انسانوں کے دخل سے بھری ہوئی ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ج۲ ص۵۲۹، خزائن ج۳ ص۳۸۴)
’’ہم مسلمانوں کے پاس وہ نص جو اوّل درجہ پر قطعی اور یقینی ہے۔ قرآن کریم ہی ہے۔ اکثر احادیث اگر صحیح بھی ہوں تو مفید ظن ہیں اور ظن حق کے لئے کچھ بھی مفید نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ج۲ ص۶۵۴، خزائن ج۳ ص۴۵۳)
’’خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ یہ تمام حدیثیں جو یہ پیش کرتے ہیں۔ تحریف معنوی یا لفظی میں آلودہ ہیں اور یاسرے سے موضوع ہیں۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۰ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۵۱)
’’تمہارے ہاتھ میں کیا ہے۔ بجز ان چند حدیثو ںکے جو تہتر(۷۳) فرقوں نے بوٹی بوٹی کر کے باہم تقسیم کر رکھی ہیں۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۲۱، خزائن ج۱۷ ص۴۵۶)
قرآن میں کسی مسیح کے آنے کا ذکر نہیں۔ حدیثوں کی حالت آپ کے سامنے ہے۔ احمدی بھائیو! انصافاً کہو کہ اب اگر کوئی شخص کسی ظنی حدیث کی بنیاد پر رسول بن کر آجائے تو کیا اس
۱؎ یہاں پر مصنف کا عقیدہ انکار حدیث عروج پر ہے۔ معاذ اﷲ! (مرتب)