لوگ بہت تھوڑی تعداد میں ہیں۔ لیکن انہوں نے اشاعت اسلام کا ٹھوس کام قادیانیوں کی نسبت کہیں زیادہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں مولوی محمد علی قادیانی اور خواجہ کمال الدین قادیانی کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مولوی صاحب نے قرآن کریم کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے اور اردو میں تین جلدوں پر مشتمل ایک تفسیر بھی لکھی ہے۔ انگریزی ترجمہ اس زمانہ کے لحاظ سے بہت اہم تھا۔ کیونکہ غالباً اس وقت تک ایک غیر مسلم مصنف کے سوا کسی نے قران کریم کا انگریزی میں ترجمہ نہ کیا تھا اور مولوی صاحب کا یہ اجتہاد بھی قابل ستائش ہے کہ انہوں نے قرآن کے انگریزی ترجمے کا ایک ایڈیشن بغیر عربی متن کے شائع کیا جو ہمارے نزدیک قرآن کو دیگر زبانوں میں منتقل کرنے اور اس کی اشاعت کو بڑھانے کے لئے ضروری ہے۔ ان کتب کے علاوہ مولوی صاحب نے صحیح بخاری کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔ دو جلدوں کی اس کتاب میں ترجمہ کے علاوہ مفید حواشی بھی درج ہیں۔ مولوی صاحب کے تفسیری نوٹوں میں اکثر مقامات کا طرز استدلال بہت لوگوں کے لئے قابل قبول نہ ہوگا۔ لیکن یہ بات ہر کوئی مانے گا کہ یہ کتاب نہایت محنت سے اور مکمل تحقیق کے بعد لکھی گئی ہیں اور اسلامی لٹریچر میں ایک مفید اور خیال آفریں اضافہ ہیں۔ مولوی صاحب کی بعض دوسری کتب جمع قرآن مقام حدیث وغیرہ بھی ہیں۔ خواجہ کمال الدین قادیانی نے وسیع اور متنوع مذہبی مضامین پر اردو اور انگریزی میں بے شمار کتابیں اور رسالے لکھے ہیں۔ ان میں سے بالخصوص انگریزی لٹریچر یورپ میں اسلام کی تبلیغ میں ممد ثابت ہوا ہے۔
اس وقت بھی قادیانی جماعت کے بے شمار بیرونی مراکز تبلیغ اور ان کی (بالعموم) کاغذی کارروائی کے مقابلے میں لاہوری جماعت کی احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کا تنہا ووکنگ مشن زیادہ اہم ہے۔ اس مشن کی طرف سے شائع ہونے والا ماہنامہ اسلامک ریویو ایک بلند پایہ جریدہ ہے۔ جس میں اسلام کے متعلق گراں قدر علمی مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ ظاہری محاسن مثلاً کاغذ، تصاویر اور چھپائی وغیرہ میں بھی یہ یورپ کے بہترین رسائل سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ ضمنا ایک خوشی کی بات یہ ہے کہ عام احمدیہ پالیسی کے برعکس یہ رسالہ عام طور پر اسلام کے ترقی پسند نظریئے کا حامی ہے۔ (اب کچھ عرصہ سے اس رسالے کی اشاعت بند ہوگئی ہے جس کی وجوہ معلوم نہیں ہوسکیں)
(اب تو خیر سے مولانالال حسین اخترؒ کے ۱۹۶۹ء میں برطانیہ تشریف لے جانے پر ووکنگ مشن سے قادیانی نے دخل ہوگئے۔ اب وہ مسلمانوں کے پاس ہے۔ فقیرمرتب!)
ان سب خوبیوں کے باوجود بلکہ ان کی وجہ سے ہی لاہوری احمدیوں کو مظلوم سمجھتے