ہیں۔ یہ اس لئے کہ قادیانی احمدی اور غیر احمدی دونوں ان کو منافقین کا گروہ کہتے ہیں۔ قادیانی ان کو غیر احمدیوں سے بھی برا سمجھتے ہیں اور غیر احمدی ان کو قادیانیوں سے بدتر خیال کرتے ہیں۔ اوّل الذکر کا الزام یہ ہے کہ انہوں نے مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد اس سے بے وفائی کی ہے اور یہ کہ اپنے آپ کو غیر احمدیوں میں ہر دلعزیز بنانے کے لئے مرزاقادیانی کی تعلیم کو چھپاتے ہیں یا اسے مسخ شدہ صورت میں پیش کرتے ہیں اور غیر احمدی کہتے ہیں کہ قادیانیوں کی کم ازکم یہ خوبی تو ہے کہ اپنے آپ کو کھلم کھلا پیش کرتے ہیں اور مرزاقادیانی کے دعویٰ کی نسبت ہمیں کسی شک وشبہ میں نہیں چھوڑتے۔ اس لئے ان کے دھوکے سے بچنا آسان ہے۔ اس کے مقابلہ میں لاہوری احمدی اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں میں خلط ملط کر دیتے ہیں اور مرزاقادیانی کے دعویٰ کو اپنی اصلی شکل کے ساتھ ظاہر نہیں ہونے دیتے اور اس طرح مسلمان ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ سیاست ہو یا مذہب، اعتدال کی راہ بہت کم پسند کی جاتی ہے۔ حقیقتاً لاہوری جماعت کسی کو دھوکا نہیں دے رہے۔ بلکہ خود فریب خوردہ ہے۔ اپنے زعم میں یہ جماعت مرزاقادیانی کے مقام کی نسبت ایک ایسا عقیدہ رکھتی ہے جو بظاہر نظریۂ ختم نبوت کے منافی نہیں ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ خود مرزاقادیانی کی تحریریں بحیثیت مجموعہ لاہوری عقیدہ کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ یعنی ان تحریروں سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ لاہوری نظریہ کو قابل قبول بنانے کے لئے مرزاقادیانی کی اپنی کتب کی ایسی تاویل اور تحریف کرنی پڑتی ہے جو ہم کسی طرح جائز نہیں سمجھتے۔ پھر یہ بھی سوال ہے کہ اگر فی الواقع مرزاقادیانی کی حیثیت محض مجدد وقت کی تھی اور کسی حقیقی معنی میں نبی کا دعویٰ ان کا نہیں ہے تو پھر اس فی سبیل اﷲ فساد کی ضرورت کیا ہے؟ مجدد پر ایمان لانا کیونکر ضروری ہے اور مجدد کی اتباع میں الگ فرقہ اور جماعت قائم کرنا کس طرح جائز ہے؟ اس قسم کے فرقوں کی پہلے ہی کیا کمی ہے کہ ایک اور کا اضافہ کیا جائے؟۔
جماعت احمدیہ کے دونوں فرقوں کا اس پر اتفاق ہے کہ مرزاقادیانی کی تصانیف میں نبوت کا دعویٰ بھی ہے اور اس سے انکار بھی۔ لیکن اس تضاد کی توجیہہ دونوں الگ الگ کرتے ہیں۔ قادیانی جماعت کا نظریہ یہ ہے کہ گو خدا نے شروع سے ہی مرزاقادیانی کو نبی مبعوث کیا تھا اور باربار الہام اور وحی کے ذریعے ان کو اس کی خبر دے دی تھی۔ لیکن مرزاقادیانی دیگر مسلمانوں کی طرح ختم نبوت پر یقین رکھتے تھے اور محمد رسول اﷲﷺ کے بعد نبوت کے دروازہ کو قطعی طور پر بند