اپنے دعویٰ کے ثبوت میں مرزاقادیانی کی ایک ہی تحریر ایک غلطی کا ازالہ کا حوالہ دے رہے تھے۔ اس تحریر سے ایک فریق یہ استدلال کرتا تھا کہ فی الحقیقت مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ نہیںکیا اور ان کی طرف ایسا دعویٰ منسوب کرنا ایک بے بنیاد الزام ہے اور دوسرا فریق بھی اسی تحریر پر انحصار کر کے یہ ثابت کر رہا تھا کہ مرزاقادیانی نے نہایت واضح الفاظ میں اپنی نبوت کا اعلان کیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دو فریقوں میں سے کون سا فریق راستی پر ہے اور یہ کہ مرزاقادیانی کا اپنے متعلق فی الواقع کیا دعویٰ تھا۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ احمدیوں کی یہ اندرونی فرقہ بندی ۱۹۱۶ء میں مولوی نور الدین قادیانی کی وفات پر عمل میں آئی۔ لیکن اس زمانہ کے احمدی لٹریچر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل اختلاف ۱۹۱۶ء سے بہت پہلے پیدا ہوچکے تھے۔ البتہ مولوی نور الدین قادیانی کی وفات پر جماعت کی قیادت کے سوال نے ان اختلافات کو ایک شدید اور معین صورت دے دی۔ جس کے نتیجے میں جماعت کا دو الگ الگ گروہوں میں تقسیم ہوجانا ناگزیر ہوگیا۔ مرزاقادیانی کے وقت میں ان کے مریدوں کی ذہنی کیفیت کیا تھی؟ آج ہمارے لئے یہ معلوم کرنا ایک مشکل کام ہے۔ تاہم اس زمانے کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود مرزاقادیانی کے وقت میں ان کے پیروؤں نے ان کے منصب کی نسبت اپنے اعتقاد میں کوئی واضح صورت قائم نہ کی تھی۔
احمدیوں کا دعویٰ ہے کہ اس آخری زمانے میں مرزاقادیانی خدا کی طرف سے دنیا کی اصلاح کے لئے مامور کئے گئے ہیں۔ اس بات کو جانے دیجئے کہ اس زمانے میں کون کون سی خرابیاں ہیں اور ہم کن مسائل سے دوچار ہیں اور مرزاقادیانی نے ان خرابیوں کو دور کرنے اور ان مسائل کو حل کرنے میں اپنی وحی کی مدد سے کون سی نئی بات پیش کی ہے جو ہم پہلے نہ جانتے تھے اور پھر اس سلسلے میں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک شخص مقرر تو کیا جائے۔ دنیا کی اصلاح کے لئے لیکن اس کی عمر کا بیشتر حصہ اپنے دعویٰ ہی کی اصلاح میں گزر جائے۔ یہاں تک کہ جو کتب وہ اپنی وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے لکھے۔ ان میں بھی اپنی حیثیت کی نسبت وہی ابہام اور تضاد موجود ہو اور اس کے اولین اور نہایت درجہ معتمد مریدوں کے لئے بھی سب سے اہم یہ مسئلہ بن جائے کہ ان کے آقاء نے اپنے لئے کون سا مقام تجویز کیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہ مرید تھے جنہوں نے اپنی زندگیوں کا بہترین حصہ احمدیہ تحریک کی نذر کردیا تھا۔ بہت سے ایسے تھے جنہوں نے اپنی زندگی وقف کر کے مستقل طور پر قادیان میں رہائش اختیار کر لی تھی اور دن رات مرزاقادیانی کی صحبت میں رہتے تھے۔ دیانتداری سے ان میں سے کسی پر منافقت کا شبہ