ظاہر کیا کہ مسیح ناصری کی دوبارہ آمد سے ایک طرف امت محمدی کی سبکی اور حق تلفی ہوتی ہے اور دوسری طرف یہ صورت محمد رسول اﷲﷺ کی شان کے منافی ہے۔ (مرزاقادیانی کا ذاتی معاملہ تو خیر ایک ضمنی سی بات ہے)
اس استدلال کی نسبت مرزاقادیانی کی تحریروں کو اگر جمع کیا جائے تو بجائے خود ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔ ہم صرف نمونہ کے طور پر چند اقتباسات پیش کرتے ہیں۔
’’اب جب کہ یہ بات طے پاچکی کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبوت مستقلہ جو براہ راست ملتی ہے۔ اس کا دروازہ قیامت تک بند ہے اور جب تک کوئی امتی ہونے کی حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا اور حضرت محمدیہ کی غلامی کی طرف منسوب نہیں تب تک وہ کسی طور سے آنحضرتﷺ کے بعد ظاہر نہیں ہوسکتا تو اس صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان سے اتارنا اور پھر ان کی نسبت تجویز کرنا کہ وہ امتی ہیں اور ان کی نبوت آنحضرتﷺ کے چراغ نبوت محمدیہ سے مکتسب اور مستفاض ہے۔ کس قدر بناوٹ اور تکلف ہے۔ جو شخص پہلے ہی نبی قرار پاچکا ہے۔ اس کی نسبت یہ کہنا کیونکر صحیح ٹھہرے گا کہ اس کی نبوت آنحضرتﷺ کے چراغ نبوت سے مستفاد ہے اور اگر اس کی نبوت چراغ نبوت محمدیہ سے مستفاد نہیں ہے تو پھر وہ کن معنوں سے امتی کہلائے گا اور ظاہر ہے کہ امت کے معنی کسی پر صادق نہیں آسکتے۔ جب تک ہر ایک کمال اس کا نبی متبوع کے ذریعہ سے اس کو حاصل نہ ہو۔ پھر جو شخص اتنا بڑا کمال نبی کہلانے کا خود بخود رکھتا ہے وہ امتی کیوںکر ہوا۔‘‘ (ریویومباحثہ بٹالوی چکڑالوی ص۷، خزائن ج۱۹ص۲۱۴،۲۱۵) اور مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے سے امت محمدی کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ’’کیونکہ اگر امتی کو بذریعہ انوار محمدی کمالات نبوت مل سکتے ہیں تو اس صورت میں کسی کو آسمان سے اتارنا اصل حق دار کا حق ضائع کرنا ہے…… یہی امت جو خیر الامم کہلاتی ہے۔ حق رکھتی ہے کہ ان میں سے کوئی فرد بیمن اتباع نبوی اس مرتبہ ممکنہ کو پہنچ جائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان سے اتارنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ (ریویومباحثہ بٹالوی چکڑالوی ص۸، خزائن ج۱۹ص۲۱۵)
نیز اس طرح محمد رسول اﷲﷺ کا بھی کوئی کمال ظاہر نہیں ہوتا: ’’اور کون مانع ہے جو کسی امی کو یہ فیض پہنچایا جائے تا نمونہ فیض محمدی کسی پر مشتبہ نہ رہے۔ کیونکہ نبی کو نبی بنانا کیا معنی رکھتا ہے۔ مثلاً ایک شخص سونا بنانے کا دعویٰ رکھتا ہے اور سونے پر ہی ایک بوٹی ڈال کر کہتا ہے کہ لو سونا ہوگیا۔ اس سے کیا ثابت ہوسکتا ہے کہ وہ کیمیا گر ہے۔‘‘
(ریونیومباحثہ بٹالوی چکڑالوی ص۸، خزائن ج۱۹ص۲۱۵،۲۱۶)