میاں محمود احمد قادیانی ایک قدم آگے بڑھ کر کہتے ہیں۔ ’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے۔ خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا۔ وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ (آئینہ صداقت ص۳۵)
اس فتویٰ پر مرزاقادیانی کا اپنا ارشاد ملاحظہ ہو۔ ’’ڈاکٹر عبدالحکیم… میرے پر یہ الزام لگاتا ہے کہ گویا میں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جو شخص میرے پر ایمان نہیں لائے گا گووہ میرے نام سے بھی بے خبر ہوگا۔ تب بھی وہ کافر ہو جائے گا۔ یہ ڈاکٹر مذکور کا سراسر افتراء ہے۔ یہ تو ایسا امر ہے کہ ببداہت اس کو کوئی عقل قبول نہیں کر سکتی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۷۸، خزائن ج۲۲ ص۱۸۴)
سوال یہ ہے کہ کیا قرآن نے کسی آنے والے مسیح کی خبر دی تھی۔ اس کا جواب ہم دیں گے تو آپ اعتبار نہیں کریںگے۔ خود مرزاقادیانی کی زبانی سنئے۔ ’’قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں۔‘‘ (ایام صلح ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ ص۳۹۲)
’’جس حالت میں قرآن شریف کھلے کھلے طور پر حضرت مسیح کے وفات پاجانے کا قائل ہے تو پھر کیونکر ان کا وہ جسم جو بموجب نص قرآنی کے زمین میں دفن ہوچکا ہے۔ آسمان سے اتر آئے گا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۹۴،۹۵، خزائن ج۳ ص۱۵۲)
’’قرآن میں ایک دفعہ بھی ان کی خارق زندگی اور دوبارہ آنے کا ذکر نہیں۔‘‘
(آسمانی فیصلہ ص۵، خزائن ج۴ ص۳۱۵)
’’ایسا ہی قرآن کریم میں آنے والے مجدد کا بہ لفظ مسیح موعود کہیں ذکر نہیں۔‘‘
(شہادت القرآن ص۶۴، خزائن ج۶ ص۳۶۰)
جب کسی مجدد مسیح بن مریم یا مسیح موعود کے آنے کا ذکر قرآن میں موجود نہیں۔ بعض احادیث میں صرف مسیح ابن مریم (مسیح موعود نہیں) کے نزول کا ذکر ملتا ہے تو کیا ایسے مسیح پر اگر وہ آبھی جائے ایمان لانا ضروری ہے؟ اس کا جواب خود مرزاقادیانی یوں دیتے ہیں۔ ’’مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو۔ بلکہ صدہا پیش گوئیوں میں سے یہ ایک پیشین گوئی ہے۔ جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ج۱ ص۱۴۰، خزائن ج۳ ص۱۷۱)
’’میرے دعویٰ کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہوسکتا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۳۰، خزائن ج۱۵ ص۴۳۲)