مرزاقادیانی کی وحی کو جو بیس اجزاء پہ مشتمل ہے۔ نظر انداز کر دیا جائے۔ بات یہ ہے کہ نبی وحی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا اور یہی وحی اس کی شریعت ہوتی ہے۔ انبیاء کو شرعی وغیر شرعی میں تقسیم کرنا درست نہیں۔ اس مسئلہ پر مرزاقادیانی کا ارشاد ذیل کتنا فیصلہ کن ہے۔
’’ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کے رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام…… یہ براہین احمدیہ میں درج ہے۔ اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے۔ جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ان ہذا لفی الصحف الاولیٰ صحف ابراہیم وموسیٰ‘‘ یعنی قرآنی تعلیم تورات میں بھی موجود ہے اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء (مکمل طور پر) امر ونہی کا ذکر ہو تو یہ بھی باطل ہے۔ کیونکہ اگر تورات یا قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی۔ غرض یہ سب خیالات فضول اور کوتہ اندیشیاں ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرتﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے۔ تاہم خداتعالیٰ نے اپنے نفس پر حرام نہیں کیا کہ تجدید کے طور پر کسی اور امور کے ذریعہ سے یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو، جھوٹی گواہی نہ دو، زنا نہ کرو، خون نہ کرو، اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کرنا بیان شریعت ہے جس مسیح موعود کا بھی کام ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۷،۸، خزائن ج۱۷ ص۳۳۵،۳۳۶)
سوم…حوالے منسوخ
اس الجھن کا ایک حل جماعت احمدیہ کے امام میاں محمود احمد قادیانی نے پیش کیا ہے اور وہ یہ ’’۱۹۰۱ء سے پہلے کے وہ حوالے جن میں آپ (مرزاقادیانی) نے نبی ہونے سے انکار کیا ہے اب منسوخ ہیں اور ان سے حجت پکڑنی غلط ہے۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۱۲۱)
میاں صاحب کا یہ فیصلہ کئی لحاظ سے محل نظر ہے۔
اوّل… مرزاقادیانی آپ کے عقیدہ کے مطابق ملہم من اﷲ اور رسول تھے۔ وہ کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہتے تھے ان کے الہامات خدائی تھے۔ ملہم سے زیادہ الہامات کی حقیقت کو دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ ان کی تحریرات کو منسوخ کرنا ایک امتی کا کام نہیں ہوسکتا۔ ایک تحصیلدار کو یہ اختیار کہاں حاصل کہ وہ گورنر کے احکام کو منسوخ کرتا پھرے۔