مرزاقادیانی کی اس دلیل پر بعض حلقوں کی طرف سے یہ اعتراض کیاگیا کہ خدا کی یہ وعید صرف ان جھوٹے مدعیان نبوت کے متعلق ہے جو نئی شریعت لانے کے دعوایدار ہوں۔ اس اعتراض کا جواب مرزاقادیانی نے ان الفاظ میں دیا ہے۔ ’’اوّل تو یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔ خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی۔ ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کے رو سے ہمارے ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام ’’قل للمؤمنین یغضوا من ابصارہم ویحفظوا فروجہم ذالک اذکیٰ لہم‘‘ یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں بھی امر ہے اور نہی بھی اور اس پر تیئس برس کی مدت بھی گذر گئی۔ اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوتے ہوں تو یہ باطل ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ان ہذا لفی الصحف الاولیٰ صحف ابراہیم وموسیٰ‘‘ یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی موجود ہے اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء امر اور نہی کا ذکر ہوتو یہ بھی باطل ہے۔ کیونکہ اگر توریت یا قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی۔ غرض یہ سب خیالات فضول اور کوتاہ اندیشیاں ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)
یہ اقتباس کسی وضاحت کا محتاج نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ مرزامحمود احمد قادیانی اور مولوی محمد علی دونوں کے خیال کے برعکس خود مرزاقادیانی اپنے آپ کو تشریعی نبی سمجھتے تھے۔
ضمناً یہاں یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ مرزامحمود احمد قادیانی کے نزدیک ۱۹۰۱ء تک مرزاقادیانی اس غلط فہمی میں تھے کہ چونکہ وہ نئی شریعت نہیں لائے اس لئے وہ حقیقی معنی میں نبی نہیں ہیں۔ حالانکہ اربعین میں جو (سال ۱۹۰۰ء کی لکھی ہوئی کتاب ہے) مرزاقادیانی اپنی نسبت صاحت شریعت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ نبوت کے لئے مرزاقادیانی کے خیال میں صاحب شریعت جدید ہونا لازمی تھا۔ کیونکہ مرزاقادیانی صاحب قرآن کو بھی پرانی شریعت ہی سمجھتے ہیں۔ جو ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں موجود ہے۔
یہ تھا شریعت کا وسیع مفہوم لیکن جیسا کہ بیان ہوچکا ہے۔ شریعت کا لفظ ایک خاص محدود اور اصطلاحی معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اگر ہم صرف اس معنی کو ملحوظ رکھ کر غور کریں تو ہمیں ایک عجیب وغریب صورتحال کا سامنا ہوگا۔