پہلے شریعت کی نسبت چند بنیادی امور کا ذکر اور کچھ ممکن غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ راسخ العقیدہ مسلمانوں کے نزدیک عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ شریعت اسلامی کا ایک مکمل ضابطہ موجود ہے جو شخصی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ضابطۂ قانون الہامی ہے یا الہام کی روشنی میں مدون کیاگیا ہے۔ لہٰذا دائمی اور غیر متبدل ہے۔ یہ دعویٰ (جس شکل میں کہ عام طور پر بیان کیا اور سمجھا جاتا ہے) درست نہیں ہے۔
اوّل تو یہ بات غلط ہے کہ کوئی ایسا اسلامی شرعی قانون موجود ہے جس کے کہ تمام مسلمان کم ازکم اعتقاداً پیرو ہوںَ بیشتر امور میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے شرعی قوانین میں شدید اختلاف ہے اور ظاہر ہے کہ کسی معاملے پر متضاد شرعی قواعد کو آپ بیک وقت اسلامی اور الہامی قانون نہیں کہہ سکتے۔ دوسرے یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ شریعت کے تمام قواعد ہمیں وحی کے ذریعے ملے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ شرعی قواعد کا بہت تھوڑا حصہ براہ راست وحی پر مبنی ہے۔ اگر وحی کو قرآن تک محدود سمجھا جائے تو ہر کوئی اس پر اتفاق کرے گا کہ اس کتاب میں فقہ کے وسیع مجموعہ کے صرف چند قواعد کاذکر ہے۔ قرآن کے بعد شریعت کے مآخذ حدیث، اجماع اور قیاس ہیں۔ گو نظری طور پر قرآن کے بعد حدیث کا درجہ ہونا چاہئے اور بعض کے نزدیک حدیث غیر ملفوظ وحی کا مقام رکھتی ہے۔ لیکن عملی صورت یہ ہے کہ فقہ کے بہت کم حصے کی بنیاد حدیث پر ہے۔ فقہی مسائل کے متعلق احادیث کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہیں اور فقہاء نے اکثر صورتوں میں ان احادیث کو نظر انداز کر دیا ہے۔ کم ازکم حنفی فقہ کے متعلق یہی بات درست ہے اور ہندوستانی مسلمانوں میں حنفی فقہ کے پیروؤں کو بھاری اکثریت حاصل ہے۔ اس فقہ کا زیادہ تر انحصار قرآنی احکام کی روشنی میں اجتہاد اور استحسان پر ہے۔
اس عمومی صورت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں مرزاقادیانی کے زمانہ میں ہندوستان کے مخصوص حالات کا جائزہ لینا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلامی شریعت یہاں کس طرح اور کس حد تک نافذ تھی۔ ایسا کرنے کے بعد ہی ہم اس پوزیشن میں ہوںگے کہ یہ فیصلہ کریں کہ مرزاقادیانی کے غیر تشریعی نبی ہونے سے کیا مراد ہے۔ اس وقت کے ہندوستان میں دو مختلف لیکن یکساں طاقت اور عوامل کے اثر سے اسلامی فقہ مکمل طور پر اور اپنی شکل میں نافذ نہ رہا تھا۔ یہ دو عوامل غیر اسلامی حکومت اور مقامی رسم ورواج تھے۔ حکومت نے ملکی قانون کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ یہ تقسیم اس اصول پر تھی کہ جن معاملات کا تعلق ملکی آئین حکومت کے نظم ونسق اور امن عامہ سے ہے۔ ان کی نسبت قانون غیر دینی اساس پر مرتب ہوگا۔ اس حصہ میں تغیرات ضابطہ