’’آخر اس کا کیا مطلب ہے کہ ایک حکم تو باقی ہے۔ مگر اس کے الفاظ باقی نہیں۔ یا کم ازکم پڑھے نہیں جاسکتے یا قرآن کریم کا حصہ نہیں رہے۔ جو حکم اﷲتعالیٰ کی طرف سے آتا رہا ہے۔ جب سے دنیا قائم ہوئی الفاظ میں ہی آتا رہا ہے۔ اب ایک حکم الفاظ میں اترتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ حکم تو باقی ہے مگر لفظ نہیں رہے۔ پہلے ہی بغیر لفظوں کے اتر آتا تو بھی کچھ بات ہوتی۔ لیکن یہ گورکھ دہندہ کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتا کہ حکم لفظوں میں اترا۔ کیونکہ بغیر لفظوں کے اتر نہ سکتا تھا۔ پھر لفظ منسوخ ہوگئے اور حکم رہ گیا۔ کیا وہ حکم صحیح تھا اور لفظ غلط تھے؟ آخر بات وہ کہنی چاہئے جو عقل انسانی میں آسکے۔‘‘ (بیان القرآن ص۹۵۶، تفسیری نوٹ۳۲۰۳)
مولوی صاحب کا استدلال مرزاقادیانی کے موقف کا مکمل جواب ہے۔ لیکن مولوی صاحب نے النبوت فی الاسلام میں تو مرزاقادیانی کا عقیدہ نقل کر کے اس پر انحصار کر لیا ہے۔ کیونکہ یہ کتاب جماعت احمدیہ کے دو فرقوں کے اندرونی اختلاف میں اپنی پوزیشن درست ثابت کرنے کے لئے لکھی گئی تھی۔ اس کے برعکس تفسیر میں جو عام مسلمانوں کے لئے لکھی گئی ہے۔ مصلحتاً مرزاقادیانی کے عقیدہ کا ذکر ہی نہیں کیاگیا۔
روایات میں یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ قرأت ثانی میں ولا محدث کے الفاظ کس نے حذف کر دئیے اور کس حکمت کی بناء پر۔ البتہ مرزاقادیانی بتاتے ہیں کہ ایسا خداتعالیٰ نے خود کیا ہے اور اختصار کی غرض سے کیا ہے۔ کوئی خدائی حکم اس بارے میں پیش کرنے سے مرزاقادیانی قاصر ہیں اور ظاہر ہے کہ ایک لفظ کے حذف کرنے سے قرآن کی ضخیم کتاب میں کوئی قابل لحاظ اختصار واقع نہیں ہوتا۔ جب کہ دیگر کئی آیات تکرار کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور حذف کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ بہرحال آیت کا یہ خاص حصہ حذف نہ ہونا چاہئے تھا۔ کیونکہ اس آخری زمانے میں ان الفاظ کی مدد سے مسیح زمان اور مہدی اور دوران کی بعثت کا مہتمم بالشان مسئلہ حل ہونا تھا۔
چلئے یہ مان لیتے ہیں کہ قرآنی آیت میں ’’ولا محدث‘‘ کے الفاظ موجود ہیں۔ پھر بھی ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ اس سے مرزاقادیانی کے دعویٰ کو کیسے تائید حاصل ہوتی ہے۔ مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ ان کا دعویٰ نبوت کا نہیں محدثیت کا ہے اور ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن میں محدثیت نبوت کے ساتھ ساتھ رسالت کے ہم پہلو بیان کی گئی ہے اور کہہ سکتے ہیں کہ المحدث نبی (محدث نبی ہے) ان دو باتوں کو ملانے سے مرزاقادیانی کا دعویٰ یہ کہتا ہے۔ ’’مجھ پر جھوٹا الزام مت لگاؤ کہ میں نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ میں نبی ہر گز نہیں۔ میں صرف محدث ہوں۔ ویسے محدث کی بھی وہی معنی ہیں جو نبی اور رسول کے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۶۹، خزائن ج۳ ص۱۹۰)