قرأت مشہورہ میں ولا محدث موجود نہیں ہیں۔ لیکن قرأت غیر مشہور میں یہ آیت اس طرح پڑھی گئی ہے۔ ’’وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ بہت سے دیگر امور کی طرح اس بارے میں بھی مرزاقادیانی کا غلط عقیدہ اپنے مخالف علماء کے مسلک کے عین مطابق ہے۔
قرأت ثانیہ کے عقیدہ کے غلط ہونے کی نسبت کم ازکم ہم کسی شبہ میں نہیں ہیں۔ اگر یہ درست ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور رسول کا منصب یہ نہ تھا کہ خدا کے کلام میں کچھ اضافہ کرے یا اس میں سے کچھ حذف کر دے تو قرآن کی ایک سے زیادہ قرأت کا خیال ہی کیسے کیا جاسکتا ہے؟ یاد رہے کہ یہاں اعراب کے اختلاف سے بحث نہیں ہے۔ اس قسم کا اختلاف عرب قبائل کے لہجوں میں اختلاف پر محمول ہوسکتا ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہاں پورے الفاظ کا سوال ہے جو قرآن میں نہیں ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ پیش کیا جارہا ہے کہ ان الفاظ کو قرآن کا حصہ سمجھنا جائز ہے۔
قرآن کی نسبت خدا کا فرمان ہے کہ ہم نے ہی اسے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ہمارے لئے یہ امر الٰہی وعدہ کے برحق ہونے کی نسبت ازدیاد ایمان کا موجب ہے کہ غیروں کے علاوہ اپنوں کی مساعی کے باوجود قرآن اپنی جگہ پر قائم ہے اورتمام دنیا میں ایک ہی قرأت سے پڑھا جاتا ہے اور اگر کسی قرأت غیر مشہور کے کوئی الفاظ احادیث میں موجود ہیں تو بھی کسی کو ان کو قرآن میں لکھنے یا اس کے ساتھ ملا کر پڑھنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ یہاں تک مرزاقادیانی کے مریدوں کی لاہوری جماعت کے امیر مولوی محمد علی نے بھی اپنی کتاب بیان القرآن میں سورۃ حج کی تفسیر میں دوسری قرأت کے امکان کے ضمن میں اپنے مرشد کے خیالات کا ذکر تک نہیں کیا۔
مولوی کی اس فروگذاشت کی وجہ یہ نہیں ہوسکتی کہ وہ اس بارے میں مرزاقادیانی کے موقف سے بے خبر تھے۔ کیونکہ خود مولوی نے اپنی کتاب ’’النبوت فی الاسلام‘‘ میں ولا محدث والی قرأت کی نسبت مرزاقادیانی کی کتب کے حوالہ جات کم ازکم تین بار نقل کئے ہیں اور اپنی دلیل کے لئے ان حوالوں پر انحصار کیا ہے۔ اسی طرح مولوی صاحب کے قرأت ثانیہ پر بحث نہ کرنے کا موجب یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ اس معاملے کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ کیونکہ اسی تفسیر میں مولوی نے ایک دیگر موضوع پر بحث کرتے ہوئے قرآن میں بعض الفاظ کے حذف کئے جانے کے عقیدہ کی نسبت حسب ذیل خیالات پیش کئے ہیں۔