ہوجاتا ہے اور ان تمام ہدایتوں اور مقامات عالیہ کو ظلی طور پر پالیتا ہے جو اس سے پہلے نبیوں اور رسولوں کو ملے تھے اور انبیاء اور رسل کا وارث اور نائب ہو جاتا ہے۔ وہ حقیقت جو انبیاء میں معجزہ کے نام سے موسوم ہوتی ہے ۔ وہ اس میں کرامت کے نام سے ظاہر ہوتی ہے اور وہی حقیقت جو انبیاء میں عصمت کے نام سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس میں محفوظیت کے نام سے پکاری جاتی ہے اور وہی حقیقت جو انبیاء میں نبوت کے نام سے بولی جاتی ہے۔ اس میں محدثیت کے پیرایہ میں ظہور پکڑتی ہے۔ حقیقت ایک ہی ہے۔ لیکن بباعث شدت اور ضعف رنگ کے مختلف نام رکھے جاتے ہیں۔ اسی لئے آنحضرتﷺ کے ملفوظات مبارکہ اشارات فرمارہے ہیں کہ محدث نبی بالقوۃ ہوتا ہے اور اگر باب نبوت مسدود نہ ہوتا تو ہر ایک محدث اپنے وجود میں قوت اور استعداد نبی ہو جانے کی رکھتا تھا اور اسی وقت اور استعداد کے لحاظ سے محدث کا حمل نبی پر جائز ہے۔ یعنی کہہ سکتے ہیں کہ المحدث نبی جیسا کہ کہہ سکتے ہیں۔ ’’العنب خمر نظراً علی القوۃ والاستعداد ومثل ہذا الحمل شایع متعارف فی عبارات القوم وقد جرت المحاورات علیٰ ذلک کما لا یخفی علیٰ کل ذی عالم مطلع علیٰ کتب الادب والکلام والتصوف‘‘ اور اسی حمل کی طرف اشارہ ہے۔ جو اﷲ جل شانہ نے اس قرآن کو جو ’’وما ارسلنا من رسول ولا نبی ولا محدث‘‘ ہے۔ مختصر کر کے قرأت ثانی میں صرف یہ الفاظ کافی قرار دئیے کہ ’’وما ارسلنا من رسول ولا نبی‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۳۷، خزائن ج۵ ص۲۳۷)
قرآن کریم کی دوسری قرأت سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے ایک زائد لفظ محدث موجود ہے اور پھر بنظر اختصار اس کو حذف کر دیا گیا ہو؟ شروع میں آئینہ کمالات اسلام میں یہ تحریر پڑھ کر ہمیں بہت تعجب ہوا اور سوچتے رہے کہ مرزاقادیانی کو قرآنی عبارت میں اس طرح کی تحریف کرنے کی جسارت کیوں کر ہوئی۔ بعد میں مزید مطالعہ سے ظاہر ہوا کہ اس بارے میں مرزاقادیانی بغیر سند کے نہیں ہیں۔
مذکورہ بالا آیات سورۃ حج میں ہیں۔ یہ کہنا تو غیر ضروری ہے کہ اس میں محدث کے الفاظ نہیں ہیں۔ سیوطی نے اپنی تفسیر درمنثور میں سورۃ حج کے ذکر میں (ج۴ ص۳۶۶) عمرو بن دینار تابعی کے حوالے سے یہ روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ حضرت ابن عباسؓ نے یہ آیت یوں پڑھی۔ ’’وما ارسلنا من قبلک من نبی ولا رسول ولا محدث‘‘ اسی طرح کتاب الصافی شرح اصول الکافی میں جو شیعہ فرقہ کی حدیث اور روایت کی مستند کتاب ہے۔ ایک باب بعنوان ’’الفرق بین الرسول والنبی والمحدث‘‘ ہے۔ جس میں لکھا ہے کہ گو سورۃ حج کی