ہے۔ سب سے پہلی وحی جو رسول کریمﷺ پر نازل ہوئی وہ بالاتفاق سورۃ علق کی پہلی پانچ آیات ہیں۔ اس وحی کے نزول کے واقعہ کو (بخاری ج۱ ص۷۳۹) میں بیان کیاگیا ہے۔ زیر بحث نکتہ کی وضاحت کے لئے اس حدیث کے ایک حصہ کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔
’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا۔ رسول کریمﷺ حرا کی غار میں تنہا رہتے اور وہاں عبادت کرتے۔ وہاں آپؐ کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا پڑھ تو فرمایا میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ پس اس نے کہا ’’اقراء باسم ربک الذی خلق۰ خلق الانسان من علق۰ اقراء وربک الاکرم‘‘ پس رسول ان آیات کے ساتھ لوٹ آئے اور درآنحالیکہ آپؐ کا دل کانپ رہا تھا۔ سو آپؐ خدیجہؓ بنت خویلد کے پاس آئے اور کہا مجھے کپڑا اوڑھادو۔ سو انہوں نے آپؐ کو کپڑا اوڑھادیا۔ یہاں تک کہ آپؐ کا ڈر جاتا رہا۔ پھر خدیجہؓ آپؐ کو ساتھ لے کر چلیں۔ یہاں تک کہ آپؐ کے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچیں۔ خدیجہؓ نے اسے کہا۔ اے چچا کے بیٹے۔ اپنے بھائی کی بات سن۔ تب ورقہ نے کہا اے بھائی کے بیٹے آپؐ نے کیا دیکھا تو رسول اﷲﷺ نے اسے خبر دی جو دیکھا تھا۔ پس ورقہ نے آپؐ سے کہا یہ وہ رازدار فرشتہ ہے جو اﷲتعالیٰ نے موسیٰ پر اتارا۔ اے کاش! میں اس زمانہ میں جوان ہوتا۔ اے کاش! میں اس زمانہ تک زندہ رہوں۔ جب آپؐ کی قوم آپؐ کو نکال دے گی۔ تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کیا وہ مجھے نکال دیں گے۔ اس نے کہا ہاں کوئی شخض کبھی اس کی مثل نہیں لایا جو آپؐ لائے ہیں۔ مگر لوگ اس کے دشمن ہوجاتے ہیں۔‘‘
اس حدیث میں بیان کردہ واقعہ قرآنی آیت اور عقلی قیاس کے خلاف نہیں۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اس کو درست نہ مانا جائے۔ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ ورقہ بن نوفل نے محض وحی کے نزول سے یہ جان لیا کہ محمدﷺ کو منصب نبوت عطاء کیاگیا ہے۔ وحی میںنبوت یا نبی کے الفاظ استعمال ہونا ضروری نہیں سمجھا گیا اور کسی کی طرف سے ورقہ کی اس رائے کی نسبت نہ کوئی وضاحت طلب کی گئی اور نہ اس پر اعتراض کیاگیا۔ غالباً حدیث اور تفسیر کی کتب سے وہ خاص وقت متعین ہوسکتا ہو کہ جب رسول کریمﷺ کو پہلی بار وحی میں نبی یا رسول کے نام سے مخاطب کیاگیا۔ لیکن یہ ایک تحقیق طلب معاملہ ہے اور ابتدائی زمانے کے بعد کی وحی کے نزول کی ترتیب کا مسئلہ اختلاف سے خالی نہیں۔ تاہم موجوہ بحث کی غرض کے لئے زیادہ تفصیل میں جانا ضروری نہیں۔ اتنا ذکر کردینا کافی ہے کہ غار حرا والی پہلی وحی کے بعد سورۃ مدثر نازل ہوئی۔ پہلی وحی اور سورۃ مدثر کے نزول کے درمیانی عرصہ کی نسبت کچھ اختلاف ہے۔ لیکن عام طور پر یہ مدت چھ ماہ کی بیان کی گئی