مرزاقادیانی نے نبوت کا انکار فرمایا ہے وہاں تشریعی نبوت مراد ہے اور جہاں دعویٰ کیا ہے۔ وہاں غیر تشریعی۔
’’وہ (حضورعلیہ السلام) ان معنوں سے خاتم الانبیاء ہیں کہ ایک تو تمام کمالات نبوت ان پر ختم ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کے بعد کوئی نبی شریعت لانے والا رسول نہیں۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۹، خزائن ج۲۳ ص۳۸۰)
ہم صفحات گذشتہ میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ہر نبی وحی کے ہمراہ آتا ہے۔ اور یہی وحی اس کی شریعت اور کتاب ہوتی ہے۔ ’’بلاشبہ جس کلام (الہام) کے ذریعہ سے یہ تمام تفصیلات ان (مسیح علیہ السلام) کو معلوم ہوںگی وہ بوجہ وحی رسالت ہونے کے کتاب اﷲ کہلائے گی۔‘‘
(ازالہ اوہام ج۲ ص۵۷۹، خزائن ج۳ ص۴۱۲) ’’خدا کا کلام اس قدر مجھ پر نازل ہوا ہے کہ اگر وہ تمام لکھا جائے تو بیس جزو سے کم نہیں ہوگا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۷)
’’اب کے سالانہ جلسہ پر میاں محمود احمد قادیانی خلیفہ قادیان نے کتاب کی اہمیت کو جتاتے ہوئے خود قادیان میں حضرت مسیح موعود کے الہامات کو جمع کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی مریدوں کو اس کی تلاوت کے لئے بھی ارشاد فرمایا۔‘‘
(پیغام صلح مورخہ ۱۱؍جون ۱۹۳۴ئ، مضمون ڈاکٹر بشارت احمد لاہوری احمدی)
’’آپ (مرزاقادیانی) کی وحی بھی جدا جدا آیت ہے اور مجموعہ الہامات الکتاب المبین ہے۔‘‘ (رسالہ احمدی از قاضی محمد یوسف ص۴۳)
’’الحمدﷲ کہ آپ کا (مرزاقادیانی کا) ایک لحاظ سے صاحب کتاب ہونا ثابت ہوگیا۔‘‘ (الفضل ۱۵؍فروری ۱۹۱۹ئ)
’’اور میں عیسیٰ مسیح کو ہرگز ان امور میں اپنے پر کوئی زیادت نہیں دیکھتا یعنی جیسے اس پر خدا کا کلام نازل ہوا ایسا ہی مجھ پر بھی ہوا۔‘‘ (چشمہ مسیحی ص۲۳، خزائن ج۲۰ ص۳۵۴)
اگر بالفرض نبوت کی دو قسمیں یعنی تشریعی وغیر تشریعی مان بھی لی جائیں تب بھی یہ حقیقت سب کے ہاں مسلمہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صاحب کتاب وشریعت نبی تھے۔ اگر مرزاقادیانی کے الہامات انجیل کے ہم پایہ تھے تو پھر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ایک چھوٹی سی کتاب یعنی انجیل کی بناء پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو صاحب کتاب وشریعت رسول تسلیم کیا جائے اور