متعین کرنے کے لئے یہ دونوں امور مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور زندگی کے دیگر تمام شعبے وراثت اور ازدواج کے قوانین سے متاثر ہوتے ہیں۔ اگر مسلمان ان دو باتوں میں قرآنی قانون پر کاربند رہتے تو اس وقت سماجی معاشی اور سماجی امور میں عورت کو مرد کے برابر حقوق دلانے یا ان کی حفاظت کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ قرآنی احکام ان حقوق کے قائم کرنے اور انہیں برقرار رکھنے کے لئے کافی ضمانت ہیں اور دیگر کسی تحفظ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک وسیع مضمون ہے اور میں صرف ان پہلوؤں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کا اس کتاب کے محدود موضوع سے تعلق ہے۔ اس ضمن میں میرے سامنے تین سوالات بحث طلب ہیں۔
۱…
ازدواجی قوانین کی نسبت قرآنی احکام کیا ہیں؟
۲…
ہمارے فقہاء نے ان قوانین کو کیا شکل دے دی ہے اور اس سے معاشرہ میں کیا کیا خرابیاں واقع ہوگئی ہیں؟
۳…
مرزاغلام احمد قادیانی نے اسلامی فقہ کے ان قوانین کی نسبت کیا رویہ اختیار کیا ہے اور وہ رویہ کہاں تک اس شخص کے منصب کے مطابق ہے۔ جسے دعویٰ ہے کہ وہ نبی اور مجدددین ہے اور اسے خداتعالیٰ نے قرآن کریم کی تعلیم اپنی اصل شکل میں پیش کرنے کے لئے مامور کیا ہے۔
نکاح کی نسبت قرآنی نظرئے اور دیگر مذاہب کے پیش کردہ نظریات میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ قرآن نکاح کو ازدواجی معاہدہ قرار دیتا ہے۔ اس کے برعکس بیشتر دیگر مذاہب نے ازدواجی تعلق کو ایک نیم مذہبی فریضہ کی شکل دے دی ہے۔ بالخصوص ہندو مذہب میں شادی ایک مذہبی رسم (Sacrement) سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے فقہاء نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ اسلامی نکاح ایک سول معاہدہ ہے۔ لیکن تعجب یہ ہے کہ اس اصل کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے نکاح کی نسبت قواعد وہ وضع کئے ہیں جو منطقی لحاظ سے اس اصل کے بالکل متناقض ہیں۔ مثلاً یہ مسلمہ بات ہے کہ معاہدہ کے لئے فریقین کی باہمی رضامندی (Agreement) ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رضامندی صرف بالغ مرد اور بالغ عورت ہی دے سکتے ہیں۔ اس امر کو بھی فقہاء نے تسلیم کیا ہے اور ہمارے مروج فقہ کی رو سے بالغ مرد اور عورت کا نکاح ان کی رضامندی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ رضامندی کی شہادت وغیرہ کی نسبت بھی ایسی کڑی شرائط مقرر کی گئی ہیں کہ دھوکہ اور غلط فہمی کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔ ویسے ہمارے ملک میں ان فقہی مسائل کی جگہ بھی رسم ورواج نے لے لی ہے اور عورت کی رضا مندی کی نسبت بس واجبی سی کارروائی ہی کی جاتی