اندازہ کچھ اس سے کر لیجئے کہ آج بھی جب قرآن کے نازل ہوئے۔ قریباً چودہ سو سال ہوچکے ہیں۔ اکثر مسلمان بھی عورت اور مرد کی مساوات کے نظریہ کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ مرد کو عورت پر برتری حاصل ہے۔ اس رائے کے لئے کبھی تو یہ لوگ (غیر قرآنی) فقہ پر انحصار کرتے ہیں اور کبھی عورت کی فطری کمزوری کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ یہ فقہ آپ نے خود مرتب کیا ہے اور اگر جسمانی کمزوری کی وجہ سے عورت اپنے انسانی حقوق سے محروم کی جاسکتی ہے تو دنیا کے طاقت ور مرد اپنے کمزور بھائیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے میں حق بجانب ہیں۔ اسی طرح زبردست اقوام کے لئے کمزور قوموں اور ملکوں کو محکوم رکھنا بھی جائز ہے۔
دراصل اسلام سے قبل صدیوں تک عورت مرد کے ظلم کا شکار رہی تھی اور مردوں کے ذہن میں عورت کے خلاف نفرت وحقارت کے جذبات اتنے راسخ ہو چکے تھے کہ اس صورتحال میں کوئی قباحت نہ سمجھی جاتی تھی اور اسے فطرت کے عین مطابق خیال کیا جاتا تھا۔ ان تعصبات کو دور کرنے کے لئے ایک مدت مدید تک قرآنی تعلیم پر عمل کرانے کی ضرورت تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ ایک قلیل عرصہ کے لئے اور وہ بھی صرف عرب میں قرآنی اصول کے مطابق حکومت قائم رہ سکی اور اس کے بعد ملوکیت کا دور شروع ہوگیا۔ مستبد بادشاہ جو مردوں کے حقوق بھی غصب کرنے کے درپے تھے۔ عورتوں کو ان کے ماتحت مساویانہ حقوق ملنا خارج از بحث تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سلاطین کے زیر سایہ ہمارے فقہاء نے قرآنی اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے اسلامی قانون کے نام سے ایک ایسا ضابطۂ قواعد مدون کرنا شروع کردیا جس پر عمل کرنے سے عورت بتدریج اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوتی گئی۔
یہاں اس امر کی وضاحت کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مرد اور عورت کی مساوات کا تخیل محض ایک نعرہ کی صورت میں پیش کرنا بے فائدہ بات ہے۔ اس طرح کی نعرہ بازی ہمیشہ سے دنیا میں جاری رہی ہے۔ لیکن عورت جوں کی توں مجبورومحکوم رہی ہے۔ مرد نے عورت کو فرشتہ، دیوی، پھول، قول قزح تو قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے انسان ہونے سے انکار کیا ہے۔ قرآن کسی شاعر یا مصور کے فکر کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس لئے اس نے اس طرح کے خوبصورت لیکن بے حقیقت الفاظ سے کام نہیں لیا۔ قرآن نے عورت کو مرد کی طرح انسان قرار دیا ہے اور محض اعلان اور نصیحت پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ واضح اور غیر مبہم الفاظ میں دو بنیادی امور میں عورت کے حقوق مرد کے برابر کر دئیے گئے ہیں۔ یہ دو امور وراثت اور ازدواجی تعلقات ہیں۔ معاشرے میں عورت کا مقام