ہے۔ غالباً خاموشی نیم رضامندی کی ضرب المثل ایسے مواقع ہی کے لئے بنی ہے۔
لیکن میری رائے میں بلوغت کی عمر مقرر کرنے میں فقہاء نے غلطی کی ہے۔ یہ درست ہے کہ قرآن میں یہ عمر بیان نہیں کی گئی۔ لیکن ایسی ہی بیسیوں اور باتیں قرآن میں درج نہیںہیں۔ ایسے امور کا فیصلہ قرآنی اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے اپنی عقل سے کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بلوغت کی عمر کیا ہونی چاہئے؟ ہمارے فقہاء کا فتویٰ ہے کہ عورت جب (Pubert) ہو جائے یعنی ایسی عمر کو پہنچ جائے کہ جسمانی لحاظ سے جنسی تعلق ممکن ہو جائے تو وہ نکاح کے لئے بالغ سمجھی جائے گی۔ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے پریوی کونسل نے قراردیا ہے کہ ہندوستانی عورت نوسال کی عمر میں بھی بالغ ہوسکتی ہے۔ (ویسے ۹سال کی لڑکی کو عورت کہنا ہی ایک طرح کی زیادتی ہے)
اصل بات یہ ہے کہ بلوغت کی عمر مقرر کرنے میں صرف جسمانی تعلق کے امکان کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور نکاح کے اعلیٰ مقاصد اور نکاح کے بعد عورت کی ذمہ داریوں کی اہمیت کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ بلوغت کا تعلق اس قیاس پر ہے کہ بالعموم ایک خاص عمر تک پہنچ کر انسان شعور کا ایک خاص درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ یہ عمر سب معاملات میں ایک سی نہیں ہوسکتی اور عملاً نہیں ہے۔ مثلاً پاکستان میں جرائم کی ذمہ داری کے لئے سات سال کی عمر مقرر کی گئی ہے۔ یہ اس قیاس پر ہے کہ نیکی اور بدی میں تمیز کرنے کے لئے کم ازکم سات سال کی عمر کو پہنچنا ضروری ہے۔ نکاح کے علاوہ دوسرے معاہدات میں رضامندی دینے کے لئے کم ازکم عمر اٹھارہ سال مقرر ہے اور اکثر نمائندہ اداروں میں حق رائے دہندگی کی عمر ۲۱تا۲۵سال تک رکھی گئی ہے۔ اصول یہ ہے کہ متعلقہ معاملہ کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر بلوغت کی عمر کا تعین کرنا چاہئے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر سے قبل کوئی عورت اپنی جائیداد کی نسبت کوئی معاہدہ نہیں کر سکتی۔ خواہ اس جائیداد کی قیمت پانچ دس روپے ہی ہو۔ مثلاً اگر وہ سترہ سال کی عمر میں ایک معمولی برتن بیچنے کا اقرار کرے اور گو اس کی قیمت بھی وصول کر لے۔ اس اقرار کو کالعدم سمجھا جائے گا اور کوئی عدالت اس کو نافذ نہ کرے گی۔ لیکن اس کے برعکس یہی عورت نو سال کی عمر میں اپنے نفس کا سودا کرنے کے اہل سمجھی گئی ہے۔ یہ سودا قابل پابندی ہوگا اور عدالتیں اس کو خاوند کے حق میں نافذ کرائیں گی۔ اسی طرح ۲۰سال کی عمر میں عورت اس قابل نہیں سمجھی گئی کہ اسمبلیوں وغیرہ کی نمائندگی کے لئے رائے دے۔ جہاں تنہا اس کی رائے سے فیصلہ نہیں ہونا اور بہرحال نتیجہ کا اثر محض اس کی ذات پر نہیں پڑتا۔ اس کے برعکس یہی عورت ۹یا۱۰سال کی عمر میں ایک ایسے معاملے کی نسبت رائے دینے کے قابل قرار دی جاتی